اﷲ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا تو آپؐ کو برہانی قوت اور معجزات عطا فرمائے بلکہ آپؐ کی ولادت باسعادت سے بھی پہلے خرق عادت ایسی علامات اور نشانیاں ظاہر فرمائیں جو آپؐ کی نبوت کے اثبات پر بہ طور دلیل و برہان کے قائم ہیں ایسے خرق عادت علامات و نشانیوں کو ’’اِرہاص‘‘ کہا جاتا ہے۔ چند ایک کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔
دلائل النبوۃ میں امام اصبہانیؒ فرماتے ہیں: ’’جس رات رسول اﷲ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی اسی رات کسریٰ کے محل میں زلزلہ آیا اور محل پر بنے ہوئے چودہ کنگرے (گنبد) ٹوٹ کر گر پڑے فارس (ایران کا پرانا نام) کے مجوسیوں کی ایک ہزار سال سے جلائی ہوئی آگ یک بہ یک بجھ گئی۔ بحیرہ ساوہ یکایک خشک ہوگیا۔‘‘
آپ ﷺ کی نبوت کے اثبات پر آپؐ کی ولادت باسعادت سے بھی قبل دوسری دلیل ایران کے آتش کدوں کی آگ کا یکایک بجھ جانا ہے۔
حضرت عرباض بن ساریہ الفزاریؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، مفہوم: ’’اﷲ رب العزت کے ہاں میں اس وقت خاتم النبیین تھا جب کہ سیدنا آدم علیہ السلام اپنے خمیر میں تھے۔ میں تمہیں اپنے بارے مزید باخبر کیے دیتا ہوں کہ میں اپنے جد امجد حضرت ابراہیمؑ کی دعا ہوں اور حضرت عیسٰیؑ کی بشارت کا نتیجہ ہوں اور اپنی والدہ کے اس خواب کی حقیقی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا کہ ان سے ایک عظیم الشان روشنی نکلی جس سے ملک شام کے محلات روشن ہوگئے۔ (ابن حبان)
مذکورہ بالا حدیث مبارک میں ہے کہ میں اپنے باپ (جد امجد) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ثمرہ ہوں۔ حدیث کے الفاظ درحقیقت اس واقعے کی طرف اشارہ کر رہے جس کا تذکرہ قرآن کریم میں ملتا ہے اور حدیث مبارک میں بھی۔ واقعہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اﷲ کی تعمیر کے وقت دعا مانگی، مفہوم: ’’اے اﷲ! اس وادی بے آب و گیاہ مکہ مکرمہ کو روئے زمین پر پُرامن خطہ بنا، دنیا بھر کے لوگوں کے دلوں کو اس کی طرف مائل فرما اور ان لوگوں کو پاکیزہ رزق عطا فرما۔‘‘ مزید بھی چند دعائیں مانگیں، اس کے بعد بہ طور خاص بیت اﷲ کو بسانے کے لیے یوں دعا مانگی، مفہوم: ’’اے وہ ذات! جو ہماری ضرورت کے مطابق ہمیں ضروریات کو پورا فرمانے والے ہیں مکہ والوں کی نسل سے ایک اسی شہر میں ایک ایسا رسول بھیج جو ان کے سامنے تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کے باطن کو خوب پاک کرے۔ یقیناً تیری ہی ذات اقتدار کے اعتبار سے بھی کامل ہے اور حکمت کے اعتبار سے بھی کامل ہے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ)
اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی دعا کو قبول فرماتے ہوئے نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کو خاتم النبیینؐ کے طور پر مبعوث فرمایا۔ آپ ہی وہ رسولؐ بن کر تشریف لائے جن کا تذکرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور خوش خبری کا نتیجہ ہوں۔ حدیث کے الفاظ درحقیقت قرآن کریم میں مذکور واقعے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں: ’’اور اس وقت کو بھی یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس اﷲ رب العزت کا ایسا رسول بن کر آیا ہوں کہ اپنے سے پہلی نازل شدہ کتاب یعنی توارت کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے رسول (حضرت محمد ﷺ) کی تشریف آوری کی خوش خبری دیتا ہوں جن کا ایک نام احمد (بھی) ہے۔‘‘ (سورۃ الصف)
اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کو پورا فرمایا اور اس کے حقیقی مصداق حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ آپ ہی وہ رسولؐ بن کر تشریف لائے جس کا تذکرہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت میں موجود ہے۔
نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اپنی والدہ کے اس خواب کی حقیقی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا کہ ان سے ایک عظیم الشان روشنی نکلی جس سے ملک شام کے محلات روشن ہوگئے۔
اس سلسلے میں بعض اور روایات دیکھی جائیں تو ان میں ملک شام کے شہر ’’بُصریٰ‘‘ کا ذکر ملتا ہے۔ یہ ملک شام کا وہ پہلا شہر ہے جو سب سے فتح ہوا، سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے زمانہ خلافت میں حضرت خالد بن ولیدؓ کے ہاتھوں یہاں اسلام کا پرچم لہرایا گیا۔ اسی علاقے میں حضرت سعد بن عبادہؓ مدفون ہیں۔ جب کہ بعض روایات میں دو مرتبہ شام کی طرف روشنی کے نکل کا تذکرہ بھی ملتا ہے جس کی حکمت بہ ظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے چوں کہ دو بار شام کی طرف سفر کرنا تھا اس لیے دو مرتبہ اس طرف روشنی دکھلائی گئی۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ گئے جب کہ دوسری مرتبہ حضرت خدیجہؓ کا سامان تجارت لے کر ان کے غلام میسرہ کے ساتھ تشریف لے گئے تھے۔