یقیناً ہم آج مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ کورونا کی وبا نے دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ ساتھ ہی دنیا میں سیاسی، معاشی، نسلی و مذہبی بحران بھی سر اٹھا رہے ہیں، اور ان مسائل میں گھری انسانیت بہتر مستقبل کی راہ ڈھونڈ رہی ہے۔
ایک طرف جہاں دنیا انسانوں کی پیدا کی ہوئی مشکلات سے نبرد آزما ہے وہیں پاکستان بھی اپنے ہی مسائل سے دوچار ہے۔ باقی دنیا کی طرح پاکستان بھی کورونا کی وبا اور اس کی وجہ سے ہونے والے معاشی نقصانات کا شکار ہوا۔ لیکن سیاسی عدم استحکام، موٹر وے واقعہ اور بچوں کے ساتھ بدفعلی کے بڑھتے ہوئے واقعات معاشرے کی حیثیت سے ہماری ناکامی کا مظہر ہیں۔
ہمیں اور دنیا بھر کو درپیش مشکلات پر باتیں کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ لیکن جیسے قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ’پس، یقیناً ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے‘ (سورۃ الشرح)۔ اور قرآن کی روح پر عمل کرتے ہوئے اس مشکل وقت سے نکلنے کے لیے ہم بہترین نمونہ اور انسان کامل خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی طرف دیکھتے ہیں جن کی ولادت کے دن کو آج دنیا بھر میں منایا جارہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب میں آپ ﷺ کو ’سراجاً منیرا‘ یعنی روشن چراغ کہا ہے۔ جو نور محمدی کے ذریعے اندھیرے اور مایوسی کے بادلوں کو دُور کردے۔
آج صرف پورے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مسلمان جشن منائیں گے، لیکن کیا کبھی ہم مسلمانوں نے یہ سوچا ہے کہ ہم نے آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ اور سنت کو اپنی زندگیوں میں کس حد تک شامل کیا ہے؟ کچھ مذہبی حلقے سنت کے ظاہری پہلوؤں جیسے داڑھی رکھنے، مسواک استعمال کرنے اور کسی خاص قسم کا لباس پہننے پر زور دیتے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی سنت کے باطنی پہلوؤں جیسے غور و فکر، ہمدردی اور معاف کردینے کی صفت کو اپنانے کی کوشش کی ہے؟ یہ وہ صفات ہیں جو ہماری ذات اور معاشرے کو تبدیل کرسکتی ہیں۔
مثال کے طور پر خواتین اور بچوں کے ساتھ آپ ﷺ کے سلوک کو دیکھیے۔ کیا ہم لوگ اپنے معاشرے میں خواتین اور بچوں کی حالت کو دیکھتے ہوئے آپ ﷺ سے محبت اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کا دعویٰ کرسکتے ہیں؟
امہات المومنین میں حضرت خدیجہؓ کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ وہ ایک معزز اور مالدار خاتون تھیں جو آپ ﷺ اور ان کے پیغام پر کامل ایمان کے سبب مشکل ترین حالات میں بھی ان کے ساتھ موجود رہیں۔ یقیناً آپ ﷺ اور حضرت خدیجہؓ کی عائلی زندگی اس بات کی مثال ہے کہ گھریلو تعلقات کس طرح نبھائے جاتے ہیں۔
سیرت کی کتابوں میں ہمیں آپ ﷺ کی طرف سے حضرت خدیجہؓ کے لیے عزت اور محبت کے جذبات کے سوا کچھ نہیں ملتا، جو یقیناً حضرت خدیجہؓ کے اعلیٰ کردار کی مثال ہے۔ جس سال حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوا، اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال کہا گیا کیونکہ اس سال مکہ میں آپ ﷺ کے 2 مضبوط ساتھی یعنی حضرت خدیجہؓ اور آپ ﷺ کے چچا حضرت ابوطالب اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔
اگر آپ ﷺ کے ماننے والے قبائلی رسوم و رواج اور غیرت کے فرسودہ اور پرانے خیالات کو چھوڑ کر وہ طریقہ اختیار کرلیں جو طریقہ آپ ﷺ نے اپنی ازواج کے ساتھ اختیار کیا تھا تو مسلمان خواتین کی زندگی میں خاطر خواہ بہتری آسکتی ہے۔
بچوں کے ساتھ آپ ﷺ کے سلوک کی بات کی جائے تو اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرہ سے ان کا پیار مثالی تھا۔ مکہ کے بت پرست آپ ﷺ کو طعنے دیتے تھے کہ آپ ﷺ کا کوئی وارث نہیں کیونکہ آپ ﷺ کا کوئی بھی بیٹا زیادہ عرصہ حیات نہیں رہ سکا۔ لیکن قرآن میں حضرت فاطمہ کی نسبت سے سورۃ الکوثر میں کہا گیا کہ ’(اے پیغمبر!) یقین جانو ہم نے تمہیں کوثر عطا کردی ہے‘۔ اور اسی سورۃ میں آپ ﷺ کے دشمنوں کو ’لاوارث‘ کہا گیا۔
آپ ﷺ اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ سے بے حد پیار کرتے تھے، جب کبھی وہ کمرے میں داخل ہوتیں تو ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ بخاری میں آپ ﷺ کی ایک حدیث نقل کی گئی ہے کہ ’فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناحق ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا‘۔
آج مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خود سے پوچھیں کہ وہ اپنی بیٹیوں سے کیسا سلوک کرتے ہیں۔ آج بھی ایامِ جاہلیت کی طرح صحت، تعلیم یہاں تک کہ خوراک میں بھی بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔
اگر ہمیں آپ ﷺ سے عقیدت کا اظہار کرنا ہے تو پھر ہمارے گلی کوچوں اور چوکوں چوراہوں پر گھومنے والے بچوں میں سے کوئی بھی زیادتی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت اور عوام کی ذمہ داری ہے کہ ان بچوں کے لیے ایسی محفوظ جگہوں کا انتظام کریں جہاں ان کا بچپن محفوظ ہو۔ یقینی طور پر ہمارے قول اور فعل میں ابھی بہت فرق ہے۔
یقیناً یہ جشن ہماری مسرت اور خوشی کا اظہار ہے۔ آئیے ہم کوشش کریں کہ آپ ﷺ جو اسوہ حسنہ چھوڑ گئے ہیں اس پر عمل کرتے ہوئے اپنے اردگرد موجود افراد سے ویسا ہی برتاؤ کریں جیسا کہ آپ ﷺ کرتے تھے۔