چیف جسٹس نے بہت ہی بنیادی اور تیکھے سوال اُٹھائے ہیں کہ فیصلے پہ کیوں اور کس کے کہنے پہ انگلیاں اُٹھائیں اور اب کیوں اور کس کے کہنے پہ اپیلیں واپس لی جارہی ہیں۔ اب سب نے فیصلے کی سچائی تسلیم کرلی ہے تو ہم پاس ہوگئے ہیں، اب انکی باری ہے جنہوں نے فیصلے پہ عمل نہیں کیا۔ یہ بھی پوچھا کہ چار برس سے اپیلیں کیوں مقرر نہ کی گئیں اور وہ کون ہے جو خدا کے علاوہ پاکستان کا نظام ہستی چلارہا ہے؟ (آرکسٹرا کا کوآرڈینیٹر) ۔ یہ بھی کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے اور ٹھوس احکامات پر اگر عمل ہوجاتا تو شاید جڑانوالہ میں مسیحی دشمن فسادات نہ ہوتے اور ’’ہجوم کے انصاف‘‘ کا راستہ بند کیا جاسکتا تھا۔ 12 مئی 2007 کو کراچی میں کتنے ہی لوگ مارے گئے تو کیا اُس پر بھی ’’مٹی پائو‘‘۔ اگر کوئی شرم ہوتی اور آئین کا احترام ہوتا تو کوئی تو کم از کم ذمہ داری قبول کرتا۔ خود ہی چیف جسٹس نے استفہامیہ انداز میں جواب دیا کہ ’’پاکستان میں وہ سب کچھ ہوتا ہے، جو کہیں نہیں ہوتا‘‘۔ کہتے ہیں ’’اوپر سے حکم‘‘ آیا ہے۔ اور اگر آپ کہتے ہیں کہ نظر انداز کردو یا معاف کردو (مٹی پائو) تو وہ بھی لکھ دیں اور یہ بھی لکھ دیں کہ اپیلیں کیوں واپس لے رہے ہیں۔ اور یہ کہ ’’احتساب ہوگا، ہمارا بھی‘‘ (اور آپ کا بھی)
آخر فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں کیا تھا جو مملکت خداداد کے ناخدائوں کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی ہے۔ 43 صفحات پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ اور تقریباً 5 صفحات پر مشتمل ٹھوس نتائج اور احکامات ،فیصلے کے نکتے 53 میں 17 احکامات کی صورت میں دیے گئے ہیں پر اگر صدق دل سے عمل کیا جائے تو پاکستان کی آئینی جمہوریہ کو درپیش بڑے چیلنجز کا حل نکل سکتاہے۔ فیصلے میں پاکستان کی تاریخ کے حالیہ بڑے واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ۔
فیصلے میں شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے کہ یہ دوسروں یا عوام کے حقوق کی پامالی کا باعث نہ ہو۔ الیکشن کمیشن کو بااختیار قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ وہ سیاسی جماعتوں کے حوالے سے دئیے گئے معاملات پہ عمل درآمد کرائے جس میں انکی فنڈنگ بھی شامل ہے۔ ریاست کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر وہ شہریوں کا تحفظ نہیں کرے گی تو پھر 12 مئی جیسے خونی واقعات جنم لیتے ہیں۔ ایسے فتوے جو دوسروں کو مصیبت سے دوچار کرتے ہیں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ میڈیا پر بندشوں کانوٹس لیتے ہوئے پیمرا کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کیبل آپریٹرز کے خلاف کارروائی کرے یا پھر ان اداروں کو کہے جو بے جا مداخلت کرتے ہیں۔
تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہ کریں (مینڈیٹ؟) اور انہیں حق اظہار کو روکنے یا میڈیا میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ آخر میں تمام افواج کو انتباہ کیا گیا ہے کہ آئین انکی کسی طرح کی سیاسی سرگرمی میں ملوث ہونے کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ وزارت دفاع اور افواج کے سربراہوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ان ماتحتوں کے خلاف کارروائی کریں جو کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث پائے گئے جن میں کسی سیاسی جماعت کی مخالفت بھی شامل ہے۔ حکومتوں سے کہا گیا کہ وہ دہشت گردی اور نفرت انگیزی پھیلانے والوں کا سدباب کریں۔ گویا فیض آباد دھرنے کا فیصلہ موجودہ گیریژن اسٹیٹ کو ایک جمہوری اور آئینی طور پر جوابدہ ریاست بنانے اور اداروں کو غیر سیاسی رکھنے کا تقاضہ کرتا ہے۔ فیصلے کے چار برس بعد بھی ’’ریاست‘‘ اسی غیر آئینی چال پر چل رہی ہے اور دن بدن آئینی طرز عمل سے دور ہوتی جارہی ہے۔ اب جب اٹارنی جنرل نے وفاق کی طرف سے فیصلے پر ایک ماہ میں عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی ہے۔
تو کیا چیف جسٹس مٹی ڈالیں گے یا پھر ریاست اور اس کے تحت حکومتی اداروں کو آئین و قانون کی عملداری کرنے اور اپنے حلف کی پاسداری پہ راضی کرنے پہ آمادہ کرلیں گے؟