سی پیک بمقابلہ ٹرانسپورٹ کوریڈور

رواں برس چینی صدر شی چنگ پنگ کی جانب سے اعلان کردہ چین راہداری منصوبے کے آغاز کو دس سال مکمل ہو گئے ہیں۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ منصوبے کے بڑے عزائم میں نمایاں طور پر کمی آئی ہے، کیونکہ چین کی اقتصادی سست روی کے درمیان منصوبوں کو قرض دینے کی رفتار کم ہو گئی ہے۔ اٹلی جیسے ممالک اس منصوبے سے نکلنے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں اور سری لنکا اور زیمبیا جیسی قوموں نے خود کو قرضوں کے جال میں پھنسا لیا ہے جو اب اپنے قرض واپس کرنے کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔

آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن تھنک ٹینک کے فیلو گریش لتھرا نے ایک حالیہ مقالے میں لکھا ہے کہ چین کے بی آر آئی منصوبے کو متعدد دیگر وجوہات کی بنا پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں ’ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے سٹریٹجک اثر و رسوخ حاصل کرنے کے بنیادی مقاصد۔۔۔ مختلف خطوں کو جارحانہ طور پر چین سے جوڑنا، ان ممالک کی مقامی ضروریات پر ناکافی توجہ، شفافیت کی کمی، ممالک کی خودمختاری کو نظر انداز کرنا، منفی ماحولیاتی اثرات، بدعنوانی اور درست مالی نگرانی کا فقدان‘ شامل ہیں۔

اگروال کھنہ کہتے ہیں کہ تمام تر مشکلات اور مسائل کے باوجود چین نے ’حیران کن کامیابی‘ حاصل کی ہے اور آئی ایم ای سی اس کے ’حریف‘ ہونے کے قریب بھی نہیں ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ زیادہ سے زیادہ ایک معتدل راہداری منصوبہ ہو سکتا ہے۔‘

چین نے بی آر آئی منصوبے کو ایک دہائی قبل شروع کیا تھا اور رواں برس جولائی میں اس منصوبے کے تحت کل سرمایہ کاری ایک کھرب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ 150 سے زیادہ ممالک اس منصوبے میں بطور شراکت دار شامل ہو چکے ہیں۔ جیسا کہ گریش لتھرا لکھتے ہیں کہ چین نے واضح طور پر اپنے جغرافیائی دائرہ کار کو ’علاقائی سے عالمی‘ سطح پر بڑھا دیا ہے۔

ترقی یافتہ مغربی ممالک کی جانب سے چین کے بڑھتے اثر رسوخ کو روکنے کے لیے انڈیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ کا راہداری منصوبہ (آئی ایم ای سی) پہلی کوشش نہیں ہے۔

جی سیون ممالک اور امریکہ نے سنہ 2022 میں عالمی انفراسٹرکچر اور سرمایہ کاری کے لیے شراکت داری کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد 2027 تک عالمی بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں 600 ارب ڈالر کو اکٹھا کرنا ہے۔ اس منصوبے کو گلوبل گیٹ وے کا نام دیا گیا تھا اور اسے یورپی یونین کی جانب سے بی آر آئی کا جواب قرار دیا گیا ہے۔

اگرچہ ان منصوبوں کا چین کے بی آر آئی منصوبے جیسے عزائم یا وسعت سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔

اگروال کھنہ کہتے ہیں کہ تاہم حقیقت یہ ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں چین کے اقدام کے جواب میں ان منصوبوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بی آر آئی ایک ’عالمی اقتصادی قوت‘ ثابت ہوا ہے۔

کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ آئی ایم ای سی کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کی مخالفت کی عینک سے نہ دیکھا جائے اور وہ یہ تجویز کرتے ہیں کہ ایسا کرنا نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔

آئی ایم ای سی کے قیام سے تجارتی شراکت کے رجحان کو مزید فروغ ملے گا جہاں ممالک بیک وقت متعدد شراکت داروں کے ساتھ تعاون بڑھا سکتے ہیں۔ کوپن ہیگن یونیورسٹی کی پروفیسر رویندر کور کہتی ہیں کہ ’ان دنوں زیادہ تر ممالک متعدد فورمز اور اتحادوں میں شامل ہوتے ہیں۔‘