بھارت : ہندو ووٹ بینک بمقابلہ مسلمان ووٹ بینک

بھارتی ریاست آسام شادی سے متعلق نیا قانون متعارف کروانے کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے جس کا مقصد تعدد ازواج (پولی گیمی) یعنی ایک وقت میں ایک سے زائد شادی کو غیر قانونی قرار دینا ہے۔ وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کے مطابق دسمبر تک یہ قانون آسام اسمبلی سے منظور ہوجائے گا جس کا اطلاق مسلمانوں سمیت ریاست میں رہنے والے تمام مذاہب اور طبقات پر یکساں ہوگا۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو گوا کے بعد آسام ایسی دوسری بھارتی ریاست بن جائے گی جہاں ’یکساں سول کوڈ‘ نافذ ہوگا۔ خیال رہے کہ اقوام متحدہ ایک سے زائد شادیوں کے رواج کو ’خواتین کے خلاف ناقابل قبول امتیازی رویہ‘ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف سخت قانون سازی کا مطالبہ کرتا ہے۔

بھارت میں پولی گیمی کا خاتمہ کرنے کے لیے یکساں سول کوڈ کا نفاذ کسی ایک ریاست کا مسئلہ نہیں بلکہ حکومت کے مرکزی ایوانوں سے لے کر سول سوسائٹی اور سپریم کورٹ تک اس کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

مودی حکومت نے آئندہ برس عام انتخابات سے قبل ملک بھر میں ’یکساں سول کوڈ‘ کے نفاذ کا عندیہ دیا ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ میں 8 ایسی درخواستیں زیرِ التوا ہیں جن میں پولی گیمی کو غیرآئینی اور غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ فی الحال آسام کی ریاستی حکومت اپنے طور پر نیا قانون نافذ کرنے کی تیاریاں کررہی ہے۔

بھارتی آئین کے تحت بننے والے قوانین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: دیوانی اور فوجداری۔ شادی، جائیداد اور وراثت کی تقسیم سے متعلق قوانین دیوانی یعنی سول کوڈ کے زمرے میں آتے ہیں جوکہ مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لیے الگ الگ ہیں۔

اُنیس سو پچپن میں ہندو میرج ایکٹ کے ذریعے مسیحیوں سمیت تمام بھارتی شہریوں کے لیے ایک وقت میں ایک سے زائد شادی جرم قرار دے دی گئی۔ البتہ مسلمان اس سے مستثنیٰ تھے جو 1937ء میں انگریز دور حکومت کے دوران تیار کیے گئے مسلم پرسنل لا کے مطابق شادی بیاہ اور متعلقہ امور سر انجام دے سکتے ہیں۔

یکساں سول کوڈ کا مطلب ہے شادی بیاہ، طلاق، وراثت اور دیگر متعلقہ قوانین، بلا تفریق مذہب و ملت تمام شہریوں کے لیے یکساں ہوں۔ یوں مسلمانوں کا بھی ایک سے زائد شادی کرنا جرم ہوگا۔

اب ہم دوسرے سوال کی طرف آتے ہیں کہ کیا ریاستی حکومت کے پاس ایسے قانون بنانے کا آئینی اختیار ہے؟

بھارتی آئین کے مطابق کوئی بھی ریاست اپنے قوانین متعارف کروا سکتی ہے چاہے وہ مرکز کے بنائے قوانین سے متصادم ہی کیوں نہ ہوں۔ بس اس کے لیے صدر کی منظوری لینا لازمی ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے 1979ء کے مشہور مقدمے ایم کروناندھی بنام یونین آف انڈیا میں اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر رکھی ہے۔ گویا آسام حکومت کے لیے کوئی آئینی رکاوٹ حائل نہیں۔

آسام حکومت نے نئے قوانین کی تیاری سے پہلے کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے سامنے ایک اہم سوال یہ تھا کہ کیا حکومت مسلمان مرد کو ایک سے زائد شادیوں سے روک سکتی ہے؟ کمیٹی نے اپنی سفارشات میں لکھا ’کیونکہ ایک سے زیادہ شادی کی اجازت اسلام کی ضروری تعلیمات کا حصہ نہیں ہیں اس لیے حکومت یا ریاست اپنے قوانین سے اسے ریگولیٹ کرسکتی ہے‘۔ کمیٹی کے مطابق ایسی کوئی بھی پابندی مسلمانوں کی ’مذہبی آزادی‘ کو مجروح نہیں کرے گی۔

کیا مسلمان مرد سے 4 شادیوں کا حق چھین لینے سے اس کی مذہبی آزادی مجروح ہوگی؟
مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایسی قانون سازی کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ اس حوالے سے ہونے والی بورڈ کی خصوصی میٹنگ میں اسے ’مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے کی آزادی کے بنیادی حقوق‘ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا گیا۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے معروف عالم دین رضی الاسلام ندوی کا کہنا تھا کہ ’بھارتی آئین میں تمام برادریوں کو مذہبی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ یہ ایسے بنیادی حقوق کا حصہ ہے جنہیں ریاست چاہے بھی تو معطل نہیں کرسکتی۔ سب جانتے ہیں یہ سیاسی ایجنڈا ہے اور ہم اس کی بھرپور مخالفت کریں گے‘۔

اگرچہ روایتی علما تعدد ازواج پر پابندی کو تسلیم نہیں کرتے لیکن جاوید احمد غامدی جیسے روشن خیال مذہبی اسکالرز کی رائے میں کوئی ملک یا ریاست اس پر پابندی عائد کرسکتی ہے۔

مسلم دنیا میں ترکی اور تیونس سمیت چند ممالک کی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں تعدد ازواج یا پولی گیمی پر پابندی عائد ہے۔

اسکرول ان کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلم برادری سے تعلق رکھنے والے متعدد کارکنان، اسکالرز اور عام خواتین میں سے بیشتر مقامی افراد نے مجوزہ پابندی کا خیرمقدم کیا ہے لیکن بہت سے لوگوں کو خدشہ تھا کہ یہ مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش ہے۔

ہندوستان ٹائمز سے بات کرتے ہوئے ایک مسلمان خاتون کارکن کا کہنا تھا کہ ’یہ عورت کے خلاف متعصب نقطہ نظر کی پسپائی کی جانب اہم قدم ہے۔ مسلم خواتین کو سمجھنا ہوگا کہ اس قانون میں ان کی جیت ہے‘۔

مقامی میڈیا کے مطابق مسلم برادری سے تعلق رکھنے والے بہت سے معترضین یہ بھی کہتے ہیں کہ پولی گیمی کا رواج وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود کم ہوتا جارہا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور زندگی کی تیز رفتاری میں یہ اور بھی مشکل ہوجائے گا کہ ایک مرد ایک سے زیادہ عورت سے شادی اور گھر داری چلائے۔ اس لیے ’اگر بی جے پی یہ معاملہ نہ چھیڑتی تو پولی گیمی کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ جاتی‘۔

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔ اس سروے کے دوران خواتین سے سوال پوچھا گیا کہ کیا ان کے شوہر نے ایک وقت میں ایک سے زائد شادیاں کی ہوئی ہیں۔ 06-2005ء کے سروے ایڈیشن میں شامل 6.5 فیصد مسلم خواتین نے اس سوال کا جواب ’ہاں‘ میں دیا تھا۔ 2021ء میں یہی تعداد کم ہوکر محض 3.6 فیصد رہ گئی۔ دوسری طرف ہندو خواتین میں پولی گیمی کی پریکٹس 2.1 فیصد سے 1.8 فیصد تک گرگئی ہے۔

اگرچہ وزیراعلیٰ سرما جی کے مطابق ’پولی گیمی پر پابندی کا مقصد ریاست میں مسلم خواتین کو بااختیار بنانا‘ ہے لیکن اپوزیشن اسے سیاسی ایجنڈا قرار دے رہی ہے۔

پولی گیمی پر پابندی بی جے پی کا سیاسی ایجنڈا ہے، کانگریس
اے بی پی نیوز سے بات کرتے ہوئے کانگریس کے سینیئر لیڈر اور آسام اسمبلی میں قائد حزب اختلاف دیببرتا سائکیا نے کہا کہ ’پولی گیمی پر پابندی کے لیے مجوزہ قانون سازی بی جے پی کا سیاسی ایجنڈا ہے جس سے کچھ برادریوں کو ہراساں کیا جائے گا۔ جب مرکز میں پہلے سے یکساں سول کوڈ لانے کی تجویز موجود ہے تو ریاست کو یہ پابندی لگانے کی کیا ضرورت ہے؟

کانگریس کے رکن پارلیمنٹ عبدالخالق کا کہنا ہے کہ ’کوئی بھی پولی گیمی کی حمایت نہیں کرسکتا لیکن ہم بی جے پی حکومت کے پس پردہ ارادوں کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔ بے جی پی سیاسی فائدے کے لیے پابندی کے نام پر سماجی تقسیم کی دراڑ وسیع کررہی ہے‘۔

تجزیہ کاروں کے مطابق آئندہ برس عام انتخابات سے قبل مودی حکومت ممکنہ طور پر پورے ملک میں یکساں سول کوڈ ضرور نافذ کرے گی جس کا مقصد اسے انتخابی مہم کا حصہ بنانا اور ہندو ووٹ بینک کو متحرک کرنا ہے۔