فلسطین اسرائیل تنازع ، تاریخی پس منظر

: یورپ میں یہودیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی وجہ سے صیہونی تحریک زور پکڑنے لگی جس کا مقصد یہودیوں کے لیے الگ ریاست کا قیام تھا۔ اس وقت فلسطین کا علاقہ سلطنت عثمانیہ کے کنٹرول میں تھا۔ تاہم پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ خطہ برطانیہ کے زیرتسلط آیا جہاں یہودی بڑی تعداد میں منتقل ہونے لگے اور یوں مقامی عرب آبادی کے ساتھ تناؤ کا آغاز ہوا۔

برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطی کو تقسیم کیا اور مختلف ریاستیں قیام میں آئیں تاہم فلسطین برطانیہ کے زیرتسلط ہی رہا جہاں عرب قوم پرستوں اور صیہونی تنظیموں کے درمیان کشیدگی بڑھنے لگی۔ صیہونی تنظیموں نے عسکری گروہ قائم کر لیے جنھوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد الگ ریاست کے لیے دباؤ بڑھانا شروع کر دیا۔

سنہ 1947 میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے جن میں ایک یہودی ریاست ہو اور ایک عرب ریاست جبکہ یروشلم (بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ہو گا۔ تاہم 14 مئی 1948 کو اسرائیل کا قیام ہوا تو اگلے ہی دن اردن، مصر، شام اور عراق نے حملہ کر دیا۔

یہ پہلی عرب اسرائیلی جنگ تھی جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے منصوبے کے مطابق جہاں عرب ریاست بننا تھی، وہ علاقہ مختلف ممالک کے قبضے میں آ گیا اور یوں فلسطینیوں کے لیے ایک سانحے نے جنم لہا۔ ساڑھے سات لاکھ فلسطینی ہمسایہ ممالک خود فرار ہوئے یا انھیں اسرائیلی فوجیوں نے بے دخل کر دیا۔

1967 کی عرب اسرائیل جنگ نے اس تنازعے کو مذید پیچیدہ بنا دیا جب اسرائیل نے عرب اتحاد کو شکست دے کر مصر سے غزہ کی پٹی، شام سے گولان اور اردن سے مشرقی یروشلم سمیت ویسٹ بینک یعنی غرب اردن چھین لیا۔ مصر کو سینائی سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔

1973 میں مصر اور شام نے اسرائیل پر اپنے علاقے چھڑانے کے لیے حملہ کیا جسے ’یوم کپور‘ جنگ کہا جاتا ہے۔ چھ سال بعد اسرائیل اور مصر نے امن کا معاہدہ کر لیا اور سینائی مصر کو واپس لوٹا دیا گیا۔ اردن نے بھی کچھ عرصہ بعد اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے مصر کی تقلید کی۔

: فلسطین کے دو علاقے کون سے ہیں؟
: اسرائیل آج بھی غربِ اردن پر قابض ہے تاہم اس نے 2005 میں غزہ کی پٹی سے فوجیں نکال لیں تھیں۔ اقوام متحدہ آج بھی اس علاقے کو مقبوضہ مانتا ہے۔

اسرائیل پورے بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ مانتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مانتے ہیں۔

اس وقت دو فلسطینی علاقے ہیں جن میں سے ایک غرب اردن اور ایک غزہ کی پٹی ہے۔ ان دونوں علاقوں کے درمیان 45 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ غرب اردن کا رقبہ 5970 سکوائر کلومیٹر جبکہ غزہ کی پٹی صرف 365 سکوائر کلومیٹر پر محیط ہے۔

غرب اردن یروشلم اور اردن کے درمیان موجود ہے جبکہ غزہ کی پٹی 41 کلومیٹر طویل اور 10 کلومیٹرچوڑی ہے۔ غزہ کی پٹی کی سرحد کا سات کلومیٹر حصہ مصر سے ملتا ہے اور ایک جانب بحیرہ روم واقع ہے۔

غزہ میں فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس برسراقتدار ہے جس نے اسرائیل سے کئی مرتبہ جنگ کی ہے۔ اسرائیل اور مصر سختی سے غزہ کی سرحدوں کی نگرانی کرتے ہیں تاکہ حماس تک ہتھیار نہ پہنچیں۔

دوسری جانب غرب اردن میں بین الاقوامی طور پر مانی جانے والی فلسطینی حکومت ہے جس میں فتح تنظیم کا اہم کردار ہے۔ تاہم غرب اردن غربِ اردن کہلانے والے اس چھوٹے سے علاقے میں 86 فیصد فلسطینی ہیں جبکہ 14 فیصد لوگ اسرائیلی آباد کار ہیں جو ایسی بستیوں میں رہتے ہیں جو ایک دوسرے سے عموماً فاصلے پر موجود ہوتی ہیں۔

زیادہ تر اسرائیلی بستیاں 70، 80 اور 90 کی دہائی میں تعمیر ہوئی تھیں مگر گذشتہ 20 برسوں میں ان کی آبادیوں میں دوگنا اضافہ ہوا۔ اسرائیل ان بستیوں کو پانی اور بجلی جیسی سہولیات فراہم کرتا ہے اور ان کی حفاظت اسرائیل کی فوج کرتی ہے۔

: حماس کیا ہے؟
 حماس غزہ کی پٹی پر برسراقتدار فلسطینی عسکریت پسند گروہ ہے جو 2007 میں اقتدار سنبھالنے سے اب تک اسرائیل کے ساتھ متعدد جنگیں لڑ چکا ہے۔

ان جنگوں کے علاوہ حماس نے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے ہیں اور کئی حملے کیے ہیں۔ اسرائیل نے بھی حماس کو کئی بار فضائی حملوں سے نشانہ بنایا ہے۔ 2007 سے اسرائیل نے مصر کی مدد سے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر رکھا ہے۔

اسرائیل، امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین سمیت کئی عالمی طاقتیں حماس یا اس کے عسکری ونگ کو دہشت گرد قرار دے چکی ہیں۔

حماس کو ایران کی حمایت حاصل ہے جس سے یہ گروہ پیسہ، ہتھیار اور ٹریننگ حاصل کرتا ہے۔
: حماس اور اسرائیل کے درمیان مستقل تناؤ موجود رہتا پے۔ تاہم سنیچر کو حماس کی جانب سے ہونے والے حملے بلکل اچانک ہوئے جس میں حماس نے پہلے درجنوں راکٹ داغے جس کے بعد اس کے جنگجو سرحد پار کرنے کے بعد اسرائیلی آبادیوں پر حملہ آور ہوئے۔

یہ زمینی حملے زیادہ تر جنوبی اسرائیل میں ہوئے جن کی سوشل میڈیا پر نظر آنے والی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ متعدد افراد موٹر سائیکلوں پر، پیدل یا گاڑیوں پر سرحد پر موجود رکاوٹیں عبور کرنے کے بعد اسرائیل میں داخل ہوئے۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق حماس کے جنگجوؤں کے اسرائیل میں داخل ہونے کے بعد ملک کے جنوبی علاقوں میں ان کی اسرائیلی فوجیوں سے مسلح جھڑپیں ہوئیں۔

خود کو عسکریت پسند گروہ القدس بریگیڈ کا ترجمان ظاہر کرنے والے ابو حمزہ کی جانب سے ٹیلی گرام پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اُن کے جنگجوؤں نے ’متعدد‘ اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔‘

حماس کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس 53 ’جنگی قیدی‘ ہیں جن میں اسرائیلی فوج کے سینیئر افسر بھی شامل ہیں اور ان میں سے بہت سوں کو ان سرنگوں میں رکھا گیا ہے جنھیں ماضی میں اسرائیل نشانہ بناتا رہا ہے

اس کارروائی کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر فوری فضائی حملے شروع کیے جہاں مقامی حکام کے مطابق اب تک سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں حماس کے 17 عسکری کمپاؤنڈز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اسرائیلی طیاروں نے غزہ شہر کے مرکز میں واقع ایک 11 منزلہ عمارت کو بھی بمباری کر کے تباہ کر دیا ہے۔ اس عمارت میں حماس کے ریڈیو سٹیشن قائم تھے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بعد اس نے اسرائیلی علاقے پر مزید 150 راکٹ داغے ہیں۔

اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم حالتِ جنگ میں ہیں‘ اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے کہا ہے کہ حماس نے ’ایک سنگین غلطی‘ کی ہے اور یہ کہ ’اسرائیل کی ریاست یہ جنگ جیت جائے گی۔‘

فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مرکزی تنازع کیا ہے؟
ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں تاخیر کے علاوہ اسرائیل کی جانب سے غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور ان کے گرد سکیورٹی رکاوٹوں کی تعمیر نے امن کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے۔ تاہم ان کے علاوہ بھی کئی اختلافات موجود ہیں۔

اسرائیل یروشلم پر مکمل دعوی کرتا ہے اور اس کا دعوی ہے کہ یہ اس کا دارالحکومت ہے۔ تاہم اس دعوے کو بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔

فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ ان کی مستقبل کی ریاست کے سرحدیں 1967 کی جنگ سے قبل کی حالت پر طے ہونی چاہیے تاہم اسرائیل اس مطالبے کو تسلیم نہیں کرتا۔

اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد جن علاقوں پر قبضہ کیا، وہاں غیر قانونی بستیاں تعمیر کی گئی ہیں اور اب غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں پانچ لاکھ کے قریب یہودی بستے ہیں۔

ایک اور معاملہ فلسطینی تارکین وطن کا بھی ہے۔ پی ایل او کا دعوی ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زیادہ فلسطینی موجود ہیں جن میں سے نصف اقوام متحدہ کے ساتھ رجسٹر ہیں۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ان افراد کو اسرائیل واپس آنے کا حق حاصل ہے جبکہ اسرائیل کا ماننا ہے کہ ایسا کرنے سے اس کی یہودی شناخت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

ایسے میں امن کیسے قائم ہو گا؟ اس کے لیے دونوں جانب سے چند اقدامات ضروری ہوں گے۔ اسرائہل کو فلسطیونیوں کی آزاد ریاست کا حق تسلیم کرنا ہو گا، غزہ کی پٹی کے محاصرہ ختم کرنا ہو گا اور مشرقی یروشلم اور غرب اردن میں رکاوٹیں ختم کرنی ہوں گی۔