پاکستان میں گیس کے صارفین کی مشکلات تو ایک جیسی ہیں مگر بہت سے لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اس بحران کا آخر حل کیا ہے؟
ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مقامی ذخائر پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اس وقت تیل اور گیس کے مقامی ذخائر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ پیداوار بڑھائی جا سکے۔
’یہ کام ایک ماہ میں بھی ہو سکتا ہے (مگر) اس کے لیے ایک ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے ذخائر کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی صرورت ہے۔ بائیو گیس کے پلانٹ ’ہمیں گیس کی قلت سے (فوری) نکالنے میں مقامی سطح پر بہت مدد دے سکتے ہیں۔ ہماری معیشت زراعت پر منحصر ہے، اس لیے بائیو گیس کے پلانٹ بہت سستے اور تھوڑے وقت میں لگ سکتے ہیں۔ ہمیں وہ فوری طور پر لگا دینے چاہییں۔‘
بائیو گیس کے پلانٹ لگانا کوئی بڑا کام نہیں، پالیسی فریم ورک پلان بننے پر وزارت پیٹرولیم اس پر کام شروع کر سکتی ہے۔ ’اس سے بہت بڑا ریلیف تو نہیں ہو گا لیکن مقامی لوگوں کو اس کا بہت اثر پڑے گا اور ان کو گیس کی فراہمی (بہتر) ہو گی۔
کم صلاحیت والے پاور پلانٹس کو گیس سے ہٹانے کی تجویز بھی دی اور کہا کہ جن پاور پلانٹ کی صلاحیت زیادہ ہے صرف انھیں گیس پر منتقل کیا جانا چاہیے۔
ملک میں ایک سال میں 18 فیصد تک گیس کے ذخائر میں کمی سے متعلق سوال کے جواب میں عارف نے کہا کہ اس کی ایک بڑی وجہ غیر قانونی یا بغیر میٹر کے کنکشن یا گیس کی چوری بھی ہے جس کو ختم کرنا ضروری ہے۔ جو گیس کے کنکشن غیر قانونی دیے ہوئے ہیں یا چوری سے گیس دی جا رہی ہے اس کا خاتمہ کیا جائے۔ کراچی میں 10 سال سے زائد عرصے سے سات لاکھ کے قریب بغیر میٹر کے گیس کے کنکشن چل رہے ہیں۔ گیس کی چوری بھی گیس کی کمی میں بہت بڑا فیکٹر ہے اور یہ گیس کے محکمے کے افراد کی ملی بھگت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔
وزارت توانائی نے پاکستان میں گیس کے مجموعی ذخائر کی تفصیلات فراہم نہیں کیں تاہم ترجمان نے بتایا کہ گیس کی کمی کی وجوہات میں ایکسپلوریشن لائسنس کی کمی اور ہائی رسک علاقوں میں نئے ذخائر کی تلاش کے ساتھ ساتھ وہاں درپیش سکیورٹی کے مسائل شامل ہیں۔
وزارت توانائی کے ترجمان کے مطابق پاکستانی حکومت گیس کے ذخائر کی کمی کو دور کرنے اور ملک کے توانائی کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے پُرعزم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ’ٹائٹ گیس پالیسی‘ اپنائی ہوئی ہے جبکہ ’نئے آن شور بلاکس اور آف شور بڈنگ راؤنڈ‘ جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ترجمان کے مطابق سردیوں کا لوڈ مینجمنٹ پلان پورے ملک کے لیے ہے جس میں ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل کے صارفین شامل ہیں۔
دوسری جانب نگران وزیر توانائی نے اگلے سال گیس کی صورتحال میں بہتری کا عندیہ بھی دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس سال اس سے زیادہ بہتری اس لیے بھی نہیں ہو سکتی کہ ہمارے پاس ملک میں جو گیس ہے اور (ٹریول کپیسیٹی کے باعث) جتنی ایل این جی ہم امپورٹ کر سکتے ہیں اس سے زیادہ امپورٹ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ تاہم اگلے سال کے لے ہم صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’جو ذخائر ابھی ایکسپلور نہیں ہوئے یا ایکسپلور ہو گئے لیکن سسٹم میں پرائسنگ فریم ورک نہ ہونے باعث سسٹم میں نہیں آ سکے تو اس پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔‘