اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی امریکہ کا انٹیلی جنس نظام اسے کئی اہم مواقع پر دھوکا دے چکا ہے جن میں عسقلان پر ہونے والا حالیہ حملہ (سات اکتوبر) بھی شامل ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ناکامیوں کی جو مثالیں ہمارے ذہن میں آتی ہیں ان میں انقلاب ایران بھی شامل ہے جس کے بعد امریکی سفارت کاروں کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ ان مثالوں میں بھارت کی جانب سے 1998ء میں کیا جانے والا ایٹمی تجربہ اور ظاہر ہے کہ اغوا شدہ طیاروں کے ذریعے ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔
افغانستان میں بھی امریکہ نے خواتین کو آزادی دلوانے اور جمہوریت کو فروغ دینے کے کھوکھلے وعدے کیے، یہ بھی امریکی انٹیلی جنس کی ایک ناکامی تھی۔
آخر وہ لوگ کتنے مخلص ہیں جو آج اسرائیل سے محبت کر رہے ہیں لیکن خود ان کی تاریخ مارٹن لوتھر سے لے کر شیکسپیئر تک یہودیوں کے لیے حقارت سے بھری ہوئی ہے۔
بھارت میں ہندوتوا کے نظریات رکھنے والے آج اسلامو فوبیا سے اپنی مشترکہ محبت کے پیش نظر اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں جبکہ وہ کھلے عام ہٹلر کو بھی سراہتے رہے ہیں۔ یہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بھی وہی سلوک تجویز کرتے ہیں جو جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ روا رکھا گیا۔
اسرائیل کی اس حمایت کا صلہ بھی ملتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کئی بھارتی صحافیوں اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کے موبائل فونز میں اسرائیلی ساختہ پیگاسس سافٹ ویئر پایا گیا۔ تو کیا بھارتی ریاست اسرائیل کی مدد سے اپنے ہی شہریوں پر نظر رکھ رہی تھی؟ ہفتے کو ہونے والے حملے سے یہ حقیقت تو سامنے آگئی کہ شاید اسرائیل بھارتی حکومت سے اختلاف رکھنے والے بھارتی شہریوں اور سیاست دانوں کی ذاتی زندگیوں کے بارے میں تو بہت کچھ جانتا ہوگا لیکن اپنے اطراف کے حالات کے بارے میں کم ہی جانتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں کیا چیز داؤ پر لگی ہوئی ہے؟ اس طرح کے حالات میں متوقع اور غیر متوقع نتائج نکل سکتے ہیں۔ حماس کے اس قدم سے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی تعلقات کے قیام کی کوششوں کو ٹھیس پہنچے گی۔ اس حملے کے نتیجے میں امریکی صدر بائیڈن بھی اسرائیل کے لیے سفارتی اور عسکری امداد کا اعلان کرنے اور ایک امریکی بحری بیڑے کو اسرائیل کے قریب تعینات کرنے پر مجبور ہوئے وہ بھی ان حالات میں جب انہیں آگے انتخابات کا بھی سامنا ہے۔ ایسا کرکے صدر بائیڈن نے ایک اہم سوال کو جنم دیا اور وہ یہ کہ آخر غزہ کس طرح یوکرین سے مختلف ہے؟ یہ دونوں ہی ایک غاضب قوت کے خلاف لڑرہے ہیں لیکن دونوں کو بہت مختلف انداز میں دیکھا جاتا ہے۔
شاید جوبائیڈن کو یہ بات یاد ہو کہ جب برسوں پہلے ان کے ڈیموکریٹ دوست جمی کارٹر نے اپنی کتاب میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے سلوک کو نسل پرستی سے تعبیر کیا تھا تو ان کا کس طرح مذاق اڑایا گیا تھا۔ لیکن اسی دوران ایران کی حکومت کو بھی ان سے نفرت تھی اور انہوں نے 1980ء میں رونلڈ ریگن کے ساتھ مل کر انہیں شکست دی۔
اس قسم کے واقعات کی وجہ سے ہی مسئلہ فلسطین اب تک حل طلب ہے۔ اس کی ایک وجہ عدم اعتماد بھی ہے جو فریقین کے اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔