فلسطین : تباہی و بربادی کے حوالے

مسئلہ فلسطین کی تاریخ میں فلسطینیوں کی تباہی کے جگہ جگہ حوالے موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے نے بنیادی طور پر جنم ہی تباہی وبربادی سے لیا تھا اور یہ تباہی و بربادی دونوں عالمی جنگوں کے باعث یورپی اقوام پر مسلط ہوئی تھی۔ جنگ زدہ یورپ معاشی، سیاسی اور سماجی عدم استحکام سے دوچار ہو رہا تھا۔ ایسے میں دو خدشات اور خطرات کا اہل یورپ اور امریکا کو سامنا تھا۔

کیا پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ بہتر نہیں تھا کہ بظاہر دولت مند اور محنتی قرار دیے جانے والے یہودیوں کو یورپ میں بھی مؤثر کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے تاکہ تباہ حال یورپ کو فائدہ ہوتا؟ انہیں یورپ سے دور رکھ کر یورپ کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات یہودیوں کے ہاتھ جانے سے روکنا کیوں بہتر سمجھا گیا؟ یورپی ممالک میں انہیں جگہ دینے کے بجائے فلسطینی عربوں پر یہودیوں کو ایک عذاب کی طرح کیوں مسلط کردیا گیا؟

یورپ ہی نہیں امریکا بھی اپنے خطے میں ان یہودیوں کے جمع ہونے، منظم ہونے اور مؤثر ہونے کے خوف میں مبتلا تھا۔ اس سے کلی مفر ممکن نہ تھا تاہم تعداد اور رفتار میں کچھ کمی ضرور کی جا سکتی تھی تاکہ ان کی بڑی تعداد کو مشرق وسطیٰ کی راہ دکھا دی جائے۔ اس کا اظہار کئی دہائیوں قبل امریکی صدر ٹرومین کی جانب سے برطانوی وزیر اعظم ایٹلی کو لکھے گئے ایک خط میں بھی کیا گیا تھا۔ اپنے خط میں ٹرومین نے زور دیا تھا کہ یورپ میں مختلف پناہ گزین کیمپوں میں موجود یہودیوں کو بے بسی اور کسم پرُسی سے ریلیف دلایا جائے اور برطانیہ فوری طور پر ایک لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں بسائے۔

لیکن اسرائیل کا بیج بونے والے برطانیہ کے وزیر خارجہ ارنیسٹ بیون کا خیال یہ تھا کہ امریکا اس لیے یہودیوں کو فلسطین میں بسانا چاہتا ہے تاکہ یہ یہودی کہیں نیویارک کا رخ نہ کرلیں۔ بہرحال حقیقت یہ ہے یہ مسئلہ صرف امریکا کا ہی نہیں بلکہ تمام یورپی ممالک کا تھا۔ اسی وجہ سے 1920ء کی دہائی سے ہی یہودی پناہ گزینوں کو فلسطین بھجوانے کی تیاری تیز تر کردی گئی جبکہ یورپی ممالک پہلی جنگ عظیم کے بعد سے ہی یہودیوں کو یورپ سے فلسطین کی طرف دوستانہ انداز میں دھکیلنے کی کوشش کررہے تھے۔

برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک 1920ء کی دہائی سے پہلے ہی اس حوالے سے سوچ بچار شروع کر چکے تھے۔ اس لیے اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھرجیمز بالفور نے 2 نومبر 1917ء کو برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے سربراہ لائیونل والٹر راٹسچائلڈ کو خط لکھا تھا جس میں یہودیوں کو یورپ سے فلسطین میں بسانے کا منصوبہ پیش کیا گیا تھا۔

یہ خط تھا تو بہت مختصر مگر یہ اگلی صدی کے ایک بڑے عالمی تنازع کی بنیاد بنا۔ یہ خط لکھے جانے کے اگلے سال 1918ء کے اعداد وشمار کے مطابق فلسطین میں فلسطینی مسلمانوں کی آبادی 6 لاکھ 66 ہزار جبکہ مسلمانوں کے مقابلے میں فلسطین میں یہودی آبادی صرف 60 ہزار تھی۔ البتہ 1922ء میں یہودیوں کی تعداد 83 ہزار 724 تک پہنچ گئی۔ یوں مسلمانوں کی آبادی کے مقابلے میں فلسطین میں یہودیوں کی آبادی بڑھانے کا منصوبہ بروئے کار لایا گیا۔

پہلی جنگ عظیم میں عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد سے برطانیہ اپنے زیر نگیں مشرق وسطیٰ میں تیل کے قدرتی ذخائر میں گہری دلچسپی لینے لگا تھا۔ بلکہ یہ برطانیہ اور اس کے اتحادی فرانس کا اہم ہدف بن گیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں پایا جانے والا تیل مسلمانوں کے ہاتھ میں نہ رہنے پائے۔ اس تناظر میں یہودی ریاست کا قیام دوہرے فائدے میں تھا کیونکہ اس سے مشرق وسطیٰ میں امن برقرار نہیں رہتا اور تیل پر تنہا ملکیت کا خدشہ بھی باقی نہ رہتا۔

اسی ہدف کے حصول میں 1931ء تک فلسطین میں یہودیوں کو منتقل کرکے ان کی آبادی ایک لاکھ 74 ہزار 610 تک پہنچا دی گئی۔ پانچ برس بعد 1936ء میں یہ تعداد 3 لاکھ 84 ہزار 78 ہوگئی۔ 1946ء میں 5 لاکھ 43 ہزار جبکہ 1948ء میں 7 لاکھ 16 ہزار 700 تک پہنچ چکی تھی۔ گویا یورپ میں بھی یہودیوں کی آبادی کم ہورہی تھی تاکہ مستقبل میں یہ ان کے لیے خطرہ نہ بنیں۔

یہ واضح رہے کہ فلسطین میں ڈیموگرافی تبدیل کرنے کا کام خود بخود نہیں ہوا۔ 1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ کے صیہونی کمیونٹی کے سربراہ کو لکھے گئے خط کے بعد 1919ء میں لارنس آف عریبیہ کے نام سے مشہور لیفٹیننٹ کرنل ٹی ای لارنس نے صیہونی رہنما وائزمین اور اردنی شہزادے فیصل بن حسین کے درمیان 3 جنوری کو معاہدہ کروایا۔ بعدازاں یہی وائزمین اسرائیل کا پہلا صدر بنا۔

آج سے 101 سال قبل یعنیٰ 1922ء میں فلسطین پر برطانیہ کا مینڈیٹ تسلیم کرلیا گیا تھا۔ عثمانی خلافت کے آخری دن چل رہے تھے اور 1925ء میں برطانوی سفیر نے فلسطین میں رہتے ہوئے ہی یہودیوں کی فلسطین منتقلی میں حائل قانونی مشکلات کو تقریباً ختم کردیا۔ عبرانی کو سرکاری زبان کا درجہ دلوایا جبکہ عبرانی یونیورسٹی قائم کرنے کی راہ بھی ہموار کی۔ یہودی نظام تعلیم ترتیب دیا گیا جبکہ یہودی مزدوروں کی یونین قائم کرنے میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔