ورلڈ کپ 2019 میں بھارت کے خلاف پاکستان کی 7ویں شکست ہوئی۔
انگلینڈ میں ہونے والے ورلڈکپ میں پاکستان کی کارکردگی بہت اچھی نہیں رہی تھی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ مانچسٹر میں کھیلا گیا۔ 50 ہزار تماشائیوں کے سامنے بھارت نے پہلے کھیلتے ہوئے 336 رنز بنائے۔ اوپنر روہت شرما نے 140 رنز بناکر پاکستان کے لیے پہاڑ جیسا ہدف طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی جارحانہ بیٹنگ نے پاکستانی باؤلنگ کے چھکے چھڑادیے تھے جبکہ جواب میں پاکستان کی بیٹنگ بھی تتر بتر رہی۔ بارش کے باعث جب اوورزکم ہوئے تو پاکستان کو 40 اوورز میں 302 رنز کا ہدف ملا جو اس سے عبور نہ ہوسکا اور پاکستان مقررہ 40 اوورز میں 212 رنز ہی بناسکی۔
پاکستان کی کرکٹ ٹیم آج چودہ اکتوبر کو 8ویں بار بھارتی ٹیم کو سامنا کرے گا۔ بھارتی ٹیم نے حال ہی میں ایشیا کپ جیتا ہے اور وہ رواں ورلڈکپ میں آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم کو یکطرفہ طور پر شکست بھی دے چکی ہے۔ ویرات کوہلی اچھی فارم میں نظر آرہے ہیں لیکن بھارت کے کامیاب بلے باز شبھمن گل ڈینگی بخار میں مبتلاہونے کے باعث بھارتی ٹیم سے باہر ہیں اور احمد آباد میچ میں بھی ان کی شرکت کا امکان کم ہے۔
بھارتی ٹیم کا کمبینیشن اس وقت بہت عمدہ ہے۔ کے ایل راہول نے آسٹریلیا کے خلاف 97 رنز کی اننگز کھیل کر اپنی فارم کا اعلان کردیا ہے۔ باؤلنگ میں جسپریت بمرا اور کلدیپ یادو بہت عمدہ ردھم میں نظر آرہے ہیں۔ بھارت کی ٹیم چونکہ دو میچ جیت کر احمدآباد کے میدان میں اترے گی اس لیے اس کا مورال بہت بلند ہے۔
دوسری طرف پاکستان نے سری لنکا کے خلاف 345 رنز کا پہاڑ جیسا ہدف حاصل کرکے بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جیت میں بابراعظم کا کوئی کردار نہیں تھا۔ محمد رضوان اور عبداللہ شفیق کی شاندار سنچریوں نے یقینی طور پر بھارتی کیمپ کو پریشان کردیا ہوگا۔ ان دونوں کی بیٹنگ نے بابر پر بوجھ بھی کم کردیا ہے۔ پاکستان نے فخر زمان کو بینچ پر بٹھا کر اور عبداللہ شفیق کو موقع دے کر اپنی دیرینہ پریشانی سے کسی حد تک نجات حاصل کرلی ہے لیکن دوسرے اوپنر امام الحق متاثر کُن کارکردگی پیش نہیں کرپائے ہیں۔
رضوان اور عبداللہ شفیق کی کارکردگی نے بھارتی کیمپ کو پریشان کردیا ہوگا—تصویر: اے ایف پی
پاکستان کی باؤلنگ البتہ اپنے رنگ کے خلاف نظر آرہی ہے۔ شاہین شاہ کو ابھی تک ردھم نہیں مل سکی ہے۔ حسن علی اگرچہ وکٹ لے رہے ہیں لیکن رنز بھی بہت دے رہے ہیں۔ حارث رؤف کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے وہ بلے بازوں کو روکنے میں ناکام ہیں۔
اسپن باؤلنگ کے شعبے کی حالت بھی دگرگوں ہے۔ شاداب خان آؤٹ آف فارم ہیں جبکہ محمد نواز بھی کچھ زیادہ مؤثر نہیں ہیں۔ افتخار احمد آل راؤنڈر کا کردار بخوبی ادا کررہے ہیں ان کی کارکردگی میں کافی بہتری آئی ہے۔
بھارت کے خلاف پاکستان یقینی طور پر وہی ٹیم کھلائے گا جس نے سری لنکا کے خلاف میچ کھیلا تھا لیکن اس میچ میں دونوں ٹیموں کو اپنی کارکردگی سے زیادہ اپنے حواس مجتمع رکھنا مشکل ہوں گے۔ ایک لاکھ 32 ہزار تماشائیوں کے سامنے کھلاڑیوں کو اپنے اعصاب پر قابو رکھنا ہوگا۔
احمدآباد کی پچ بظاہر بیٹنگ پچ ہوگی لیکن گرم موسم کے باعث ریورس سوئنگ کا امکان ہے اس لیے اسپنرز کو بھی خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے لیکن دوسری اننگز میں بیٹنگ آسان ہوگی کیونکہ پچ مکمل طور پر سوکھ چکی ہوگی۔ خیال یہی ہے کہ یہ ایک ہائی اسکورنگ میچ ہوگا۔
پاکستان اور بھارت کے اس میچ پر دنیا بھر کی نظریں جمی ہوں گی اور یہی میچ ورلڈکپ کی سمت بھی متعین کرسکتا ہے۔ دونوں ٹیمیں متوازن ہیں جبکہ ان میں باصلاحیت کھلاڑی شامل ہیں لیکن سب کا ایک ہی سوال ہے کہ کیا بھارت کی جیت اور پاکستان کی ہار کی روایت برقرار رہے گی یا پھر رواں ورلڈکپ اس روایت کو احمدآباد میں دفن کردے گا۔
البتہ جیت جس کی بھی ہو، کرکٹ کے بھارتی شائقین کو ماضی کے برعکس اپنا مثبت رویہ دکھانا ہوگا۔ کرکٹ کبھی نہیں چاہے گی کہ اس کو کسی جلاؤ گھیراؤ کی بنیاد کہا جائے۔
احمدآباد کا نریندر مودی اسٹیڈیم جسے دنیا کے سب سے بڑے کرکٹ اسٹیڈیم ہونے کا اعزاز حاصل ہے، وہاں ہفتے کو فیصلہ ہوجائے گا کہ کس کے پٹاخے چلیں گے اور کس کے رکھے رہ جائیں گے ۔