درس و تدریس کا مستقبل

سوال یہ نہیں کہ کروڑوں کی تعداد میں سکولوں سے باہر بچوں کا مستقبل کیا ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ایک ایسے نظام تعلیم کا مستقبل کیا ہے جس میں کروڑوں بچے تعلیم حاصل ہی نہیں کر پا رہے۔

سابقہ حکومتوں کے بچوں کو سکول تک رسائی دلوانے کے بڑے دعوؤں کے باوجود ان بچوں کی تعداد تیزی سے بڑھ کر 2 کروڑ 80 لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔

وزارت تعلیم کی ایک رپورٹ کے مطابق 2 کروڑ 80 لاکھ بچے سکول نہیں جا رہے اُور یہ اعدادوشمار بھی قابل اعتماد نہیں بلکہ خود حکومتی اعدادوشمار اکٹھا کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ 

پرانے تخمینوں کے مطابق سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد ایک کروڑ 87 لاکھ تھی، جس کے بعد یہ تعداد 2 کروڑ 20 لاکھ بتائی گئی تھی، تاہم دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ 2 کروڑ 80 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

2021 سابق وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے وفاقی کابینہ کو آگاہ کیا تھا کہ تقریباً ایک کروڑ 87 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہر چار میں سے ایک بچہ کبھی سکول نہیں گیا۔

شفقت محمود نے وفاقی کابینہ کو اُس وقت بتایا تھا کہ ’تعلیم میں شرکت، تکمیل اور صنفی فرق کو ختم کرنے پر بہت سست روی سے کام ہو رہا ہے‘، کابینہ نے ایک ایسا روڈ میپ بنانے پر اتفاق کیا تھا جو بچوں کی اسکول تک رسائی کو ممکن بنا سکے لیکن اس بحران پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

اس تعداد میں ہوشربا اضافہ پاکستان کے پالیسی سازوں کی کارکردگی بے نقاب کرتا ہے کیونکہ اب پاکستان میں اسکول سے باہر رہنے والے بچوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، ضرورت ہے کہ اب تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ ہو، جس میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو سکول تک رسائی فراہم کی جائے، ایسے بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، پہلے ہم نائیجیریا سے اوپر تھے لیکن اب ہم سب سے نیچے آگئے ہیں‘۔

سکول سے محروم بچوں کے بارے میں تازہ معلومات وفاقی وزیر تعلیم کی جانب سے وزیر تعلیم پنجاب مدد علی سندھی کو لکھے گئے ایک خط میں فراہم کی گئی۔

10 اکتوبر کو لکھے گئے خط کے مطابق وفاقی وزیر نے صوبائی وزیر کو اس اجلاس میں شرکت کرنے کی درخواست کی، جو پیر کے روز (16 اکتوبر) دوپہر 3 بجے منعقد ہونا تھا، تاہم اسے چند دنوں کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔

خط میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس اجلاس کا مقصد یکساں قومی حکمت عملی بنانے پر غور کرنا ہے، جس کی مدد سے اسکول جانے سے محروم بچوں کے مسئلے کا حل نکالا جاسکے۔

خط میں صوبوں کو یہ بھی ہدایت دی گئی کہ 2 کروڑ 80 لاکھ زائد اسکول نہ جانے والے بچوں کے اہم چیلنج سے نمٹنے کے لیے، یکساں قومی حکمت عملی کا خاکہ بنانے کے لیے ضروری غور و فکر کرنے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ایک ورکنگ پیپر جمع کرائیں۔

خط کے مطابق تمام صوبائی وزرائے تعلیم کو اس بات کی تلقین کی گئی کہ وہ ایک جامع اور معنی خیز ورکنگ پیپر جمع کروائیں، جس میں متعلقہ اعداد و شمار، مالی اور انتظامی مسائل واضح طور پر درج ہوں اور ان کے حل کے لیے بھی تجاویز بھی شامل ہوں۔

ماضی میں بھی ایسی بہت سی مہم چلائی گئیں جن کا مقصد ان بچوں کو اسکول تک رسائی فراہم کرنا تھا لیکن ان سب کے نتائج انتہائی غیر معولی رہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک استاد نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ’ بہت سے معاملات میں یہ ہوتا ہے کہ بچے اپنے گھر والوں کو سہارا دینے کے لیے محنت مزدوری کرتے ہیں اور وہ تب تک اسکول نہیں جا سکتے جب تک یہ مسئلہ حل نہ ہو جائے’، ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ریاست ایسے بچوں کو اسکول میں داخل کر بھی دیں تب بھی وہ جلد ہی اسکول چھوڑ دیں گے‘۔

وزارت تعلیم سے تعلق رکھنے والے اعلی اہلکار نے پاکستان کے حالات کا سب صحارا ممالک سے موازنہ کیا، ان کا دعویٰ تھا کہ سرکاری خط و کتابت میں رپورٹ کردہ 2 کروڑ 80 لاکھ کی تعداد صحیح نہیں ہے، یہ تعداد 2 کروڑ 28 لاکھ ہے، لیکن میں اس بات کو مانتا ہوں کہ اسکول سے باہر 2 کروڑ 28 لاکھ بچوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے’۔

ذرائع کے مطابق پاکستان، تعلیم کے شعبے پر اپنی مجموعی ملکی پیداوار میں سے صرف 1.7 فیصد خرچ کرتا ہے جبکہ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ تقریبا 4 فیصد تعلیم کے لیے رکھیں تاکہ اس شعبے میں حسب آبادی خاطرخواہ ترقی کی جا سکے۔