امر واقعہ یہ ہے کہ نواز شریف کی واپسی اُس پاکستان میں نہیں ہو رہی جسے وہ چار سال قبل چھوڑ کر گئے تھے۔
گذشتہ چار برسوں میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے لے کر معاشی حالات سمیت بہت سے تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ جس دوران نہ صرف سیاسی جماعتوں کے بیانیے تبديل ہوئے بلکہ حکومتیں بھی تبدیل ہوتی چلی گئیں۔ کچھ ادارے مضبوط سے مضبوط تر ہوگئے تو کہیں سے یہ آوازیں آئیں کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ ان تمام تر تبدیلوں کے باوجود بھی مسلم لیگ نواز کا خیال ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد معاملات تبدیل ہو کر بہتری کی طرف جائیں جبکہ اکثر سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر سیاسی تاریخ دہرائی جا رہی ہے اُور بظاہر تو وہی سب کچھ ہو رہا جو پہلے ہوا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سیاسی کردار تبدیل ہوئے ہیں۔ اس سیاسی کھیل میں صرف سیاسی جماعتیں ہی کمزور ہوئی ہیں۔ اس پورے عمل میں مسلم لیگ نواز کے رویے نے دیگر قوتوں کو مضبوط کیا ہے۔ اگر وہ سیاسی طور پر اپنے آپ کو مضبوط رکھتے اور اپنے بیانیے پر قائم رہتے تو ان کے حالات قطعی مختلف ہوتے لیکن انھوں نے ڈیل کی طرف جانے کو ترجیح دی۔ اس وقت نواز شريف وہ کردار ادا کر رہے ہیں جو 2018 میں پی ٹی آئی ادا کر رہی تھی۔
تحریک انصاف کا موقف ہے کہ عوام کی طاقت سے وہ حکومت میں آئے تھے اور آج بھی اگر مداخلت کے بغیر الیکشن ہوں تو تحریک انصاف ہی جیتے گی جبکہ مسلم لیگ نواز کا یہ ماننا ہے کہ ’نواز لیگ نے جو کیا وہ اپنے لیے نہیں بلکہ پاکستانی عوام کی بہتری کے لیے کیا۔ اگر ہم یہ نہ کرتے تو عمران خان کی ناکام پالیسوں کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہو جاتا۔ اس لیے ہم نے اپنی سیاست پر پاکستان کو ترجیح دی۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ ’دونوں جماعتوں نے اپنے مفادات کے لیے پاکستان کے جمہوری نظام کو مزید کمزور کیا ہے۔‘
پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یہی ہوتا آیا ہے جو آج ہو رہا ہے۔ اقتدار کی بھوکی سیاسی جماعتیں فوج کے ہاتھوں ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتی ہیں اور دیگر ادارے جس میں عدلیہ اور بیوروکریسی شامل ہیں، وہ فوج کے ساتھ بطور جونیئر کرائم پارٹنر کے کام کرتے ہیں۔‘
نواز شريف عمر اور صحت کے جس حصے میں ہیں، پارٹی پر ان کی گرفت پہلے جیسی نہیں ہو گی۔‘
اس صورتحال میں پی ٹی آئی کے حامیوں کی صورت میں انھیں ایک مضبوط مخالف دھڑے کا سامنا کرنا ہوگا۔ ’پاکستان کی معیشت اور سیاست بنیادی فیصلوں کی متقاضی ہے اور نواز شریف یہ نہیں کر پائیں گے۔ ماضی میں بھی فوج سے نواز شریف کا ٹکراؤ نواز شریف کی کسی غلطی کے باعث نہیں ہوتا تھا۔ سیاست اور معیشت میں فوج کی مداخلت کے باعث منتخب حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ میں تصادم ناگزیر ہو جاتا ہے۔
مسلم لیگ نواز کے مخالف زیادہ تر سیاستدانوں کا یہ خیال ہے کہ نواز شریف کے لیے مستقبل میں راستہ آسان نہیں ہو گا۔
نواز شریف کی ایک تاریخ رہی ہے کہ وہ حکومت میں آنے کے کچھ عرصے بعد مکمل طور پر ہر چیز کا کنٹرول چاہتے ہیں جو اس ملک میں ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ماضی میں ان کے اقتدار سے جانے کا سبب بنی ہے، نواز شریف ’پاکستان واپس آکر زیادہ دیر تک مفاہمت کی سیاست نہیں کر پائیں گے لیکن تجزیہ کاروں کے بقول دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ فوج کے ادارے کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھتے ہیں اُور یہی طرزعمل سیاست میں اُن کے مستقبل کا تعین کرے گا۔