پنجاب : اساتذہ سراپا احتجاج کیوں؟

پنجاب ٹیچر یونین کے جنرل سیکریٹری رانا لیاقت علی نے کہا ہے کہ ’اساتذہ کا پرامن احتجاج جون، جولائی سے شروع ہے اُور بجائے ہمارے مطالبات پر ہمدردی سے غور کرنے کے اساتذہ کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ اساتذہ سکولوں میں پڑھانا چاہتے ہیں مگر حکومت پتا نہیں کیا کر رہی ہے اور کیا چاہتی ہے۔ جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں ہوں گے ہمارے لیے سکولوں میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا مشکل ہے۔

سرکاری سکول ٹیچرز کے تین بنیادی مطالبات ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ ریٹائرمنٹ کے وقت ملنے والی پینشن اور دیگر مراعات میں کمی نہ کی جائے۔ موجودہ اصلاحات سے پہلے اساتذہ کو پینشن و دیگر مراعات ریٹائرمنٹ کے وقت کے بنیادی سکیل کی تنخواہ کی بنیاد پر دی جاتی تھی۔ اب حکومت اس میں کمی لاتے ہوئے ملازمت کے وقت ملنے والی پہلی بنیادی سکیل کی تنخواہ کے حساب سے مقرر کرنے جا رہی ہے۔ اساتذہ کو سالانہ ترقی ہر سال یکم دسمبر کو ملتی تھی اس کو بھی بند کیا جا رہا ہے۔ نگران حکومت نے کچھ عرصہ قبل صوبہ بھر کے تقریباً دس ہزار سکولوں کو متعلقہ ضلعی انتظامیہ کے حوالے کیا تھا کہ اس میں بہتری لائے جائے مگر یہ پہلا قدم تھا مگر اب سرکاری سکولوں کو این جی اوز اور نجی شعبے کے حوالے کیا جا رہا ہے۔

پنجاب حکومت کے نگران وزیر اطلاعات عامر میرکا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کسی بھی سکول کو پرائیوٹ نہیں کر رہی ہے اور نہ ہی کسی سرکاری عمارت یا ادارے کو پرائیوٹ کیا جا رہا ہے وہ کہتے ہیں کہ ’یہ تو صرف اور صرف پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ پنجاب حکومت اور نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی سرکاری سکولوں کی حالت زار اور معیار کو بہتر کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

 قبل ازیں نگراں وزیرا علیٰ پنجاب محسن نقوی نے صوبے کے ایک ہزار سرکاری سکول غیر سرکاری ادارے مسلم ہینڈز کو دینے کا فیصلہ کیا ہے تاہم پنجاب ٹیچر یونین کا کہنا ہے کہ سرکاری سکولوں کو این جی اوز اور نجی شعبے کے حوالے کرنے سے ’ایک اور ایسٹ انڈیا کمپنی جنم لے گی۔ حکومت کے اس اقدام سے غریب لوگوں کے بچوں سے تعلیم حاصل کرنے کا حق چھن جائے گا۔ این جی اوز اور نجی شعبہ بچوں سے بے تحاشا فیس وصول کرے گا۔حکومت کے سکولوں کی عمارتوں کی مالیت اربوں، کھربوں روپے سے زیادہ ہے۔ نجی شعبہ اور این جی اوز ان عمارتوں اور انتہائی قیمتی انفراسٹریکچر پر قابض ہو جائے گا۔ پہلے مرحلے میں دس ہزار سکولوں کی فہرست تیار کی گئی ہے جس کے بعد  مرحلہ وار یہ کام کیا جائے۔ سکولوں کی نجکاری کے عمل میں مبینہ طور پر شفافیت بھی نہیں ہے اُور اس پورے کام کے بارے میں شرائط و تفصیلات بھی معلوم نہیں ہیں۔

پنجاب ٹیچر یونین کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب میں ستر ہزار سے زائد طالب علم سکولوں سے باہر ہیں۔حکومت جو چاہے کر لے اساتذہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اُور پرامن احتجاج جاری رہے گا۔