تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں

پیرس امن کانفرنس کے بعد عالمی امن کے قیام کے لیے ایک بین الاقوامی تنظیم کی ضرورت محسوس کی گئی۔ نتیجتاً 1920ء میں لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں آیا۔ بدقسمتی سے بڑی طاقتیں لیگ آف نیشنز کے معاملات پر غالب آگئیں کیونکہ اس تنظیم نے جو کچھ کرنا تھا اس کے پاس اس کے نفاذ کی کوئی حقیقی طاقت نہیں تھی۔

پہلی جنگ عظیم اور لیگ آف نیشنز کے قیام کے بعد مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اس سے اقبال بہت مایوس تھے۔ اس پر انہوں نے چار مصرعے کہے جو بہت سخت تھے۔ ان میں لیگ آف نیشنز کو ’کفن دُزد چند‘ یا قبروں سے کفن چرانے والے چند لوگ کہا۔ یہ دو اشعار ’پیامِ مشرق‘ میں شامل ہیں، اقبال کی فارسی شاعری کا یہ مجموعہ پہلی متربہ 1923ء میں شائع ہوا تھا۔ اقبال نے کہا کہ:

بر فتد تا روش رزم درین بزم کہن
دردمندان جھان طرح نو انداختہ اند
من ازین بیش ندانم کہ کفن دزدی چند
بہر تقسیم قبور انجمنی ساختہ اند

[جہاں کا دکھ درد رکھنے والوں نے نئی بنیاد ڈالی ہے تاکہ دنیا سے جنگ کی ریت کو ختم کیا جائے لیکن میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ کچھ کفن چورں نے قبروں کو آپس میں بانٹنے کے لیے ایک انجمن بنالی ہے۔]

عثمانی ترکوں نے اپنے دور حکومت میں یہودیوں کے ساتھ بہت زیادہ رواداری کا مظاہرہ کیا تھا۔ انہوں نے یہودیوں کو مغربی دیوار [دیوار گریہ] کے سامنے عبادت کی اجازت بھی دی تھی۔ یہ قدیم دیوار یروشلم میں قبۃ الصخرہ کے قریب واقع ہے اور مسلمانوں میں دیوارِ براق کے نام سے مشہور ہے۔

ستمبر 1929ء میں اقبال نے انگریزوں کی یہود نواز پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے ایک تقریر کی۔ محمد رفیق افضل نے اپنی کتاب ’گفتارِ اقبال‘ میں اسے نقل کیا ہے۔ اقبال نے کہا کہ ’ترک یہودیوں کے ساتھ غیر معمولی رواداری کا سلوک کرتے رہے۔ یہودیوں کی خواہش پر انہیں مخصوص اوقات میں دیوارِ براق کے ساتھ کھڑے ہوکر گریہ و بکا کرنے کی اجازت عطا کی۔ اس وجہ سے اس دیوار کا نام ان کی اصطلاح میں دیوارِ گریہ مشہور ہوگیا۔ شریعت اسلامی کی رو سے مسجد اقصیٰ کا سارا احاطہ وقف ہے۔ جس قبضے اور تصرف کا یہود اب دعویٰ کرتے ہیں قانونی اور تاریخی اعتبار سے اس کا حق انہیں ہرگز نہیں پہنچتا‘۔ (صفحہ 93)

لیگ آف نیشنز کا ہیڈ کوارٹر سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں تھا اور برطانیہ یہودیوں کی حمایت کر رہا تھا۔ چنانچہ اقبال نے ’ضربِ کلیم‘ میں اپنی نظم ’فلسطینی عرب سے‘ میں اس کی طرف اشارہ کیا:

تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے

محمد حمزہ فاروقی نے اپنے ایک مضمون میں ذکر کیا ہے کہ علامہ اقبال نے 1931ء کے آخری چند ماہ میں لندن میں منعقدہ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی تاکہ ہندوستانی سیاست دانوں کے مطالبے کے مطابق وسیع تر خود مختاری کے لیے اصلاحات پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ اُن دنوں متمر العالم الاسلامی یا ورلڈ مسلم کانگریس صیہونی خطرے پر بحث کے لیے ایک کانفرنس منعقد کر رہی تھی۔ اقبال اس کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن کانفرنس چھوڑ کر یروشلم گئے۔

اقبال یروشلم میں موتمر العالم الاسلامی کے پہلے اجلاس میں شریک ہیں— تصویر: موتمر العالم الاسلامی
اقبال یروشلم میں موتمر العالم الاسلامی کے پہلے اجلاس میں شریک ہیں— تصویر: موتمر العالم الاسلامی

اقبال نے دیگر کئی مواقع پر فلسطینی موقف کی حمایت کی تھی۔ جگہ کی کمی کی وجہ سے ہم یہاں بہت کچھ بیان نہیں کرسکتے لیکن اقبال کا 7 اکتوبر 1937ء کا خط جو محمد علی جناح کے نام لکھا گیا تھا، چشم کشا ہے۔ اقبلا لکھتے ہیں ’فلسطین کا مسئلہ مسلمانوں کے ذہنوں کو بہت پریشان کر رہا ہے۔ ۔۔۔مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ لیگ اس مسئلے پر ایک ٹھوس قرارداد منظور کرے گی اور قائدین کی ایک نجی کانفرنس کا انعقاد کرکے کسی ایسے مثبت قدام کا فیصلہ کرے گی جس میں عوام بڑی تعداد میں شریک ہوسکیں۔ اس طرح لیگ بھی مقبول ہوگی اور فلسطینی عربوں کی مدد بھی ہوسکے گی۔ ذاتی طور پر مجھے کسی ایسے معاملے پر جیل جانے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا جس سے اسلام اور ہندوستان دونوں متاثر ہوں‘۔ (ص27)

اقبال اس وقت بیمار تھے اور چھے ماہ کے اندر ان کا انتقال ہوگیا لیکن اس وقت بھی وہ فلسطین کے معاملے پر جیل جانے کے لیے تیار تھے۔