پاکستان میں گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے کی قلت ہر گزرتے دن بڑھتی جارہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گیس کی مجموعی پیداوار 4.2 ارب کیوبک میٹر سے کم ہوکر 3.3 کیوبک میٹر رہ گئی ہے۔ یعنیٰ ملک کی مجموعی پیداوار میں اب تک 90 کروڑ کیوبک میٹر کی کمی واقع ہوگئی ہے جبکہ دوسری طرف دیکھا جائے تو گیس پائپ لائن سے ہر سال نئے نئے شہر اور قصبے منسلک کیے جارہے ہیں۔
پاکستان میں گیس کے ذخائر میں سالانہ 9 فیصد کی شرح سے کمی ہورہی ہے۔ شہباز حکومت کے وزیر توانائی اور سینیٹر مصدق ملک نے سینیٹ میں بیان دیا ہے کہ ملک میں گیس کی یومیہ پیداوار 1600 ایم ایم سی ایف ہے جبکہ صرف پنجاب اور صوبہ سرحد میں جوکہ ایس این جی پی ایل کے سسٹم سے منسلک ہیں گھویلو استعمال کے لیے 1400 ایم ایم سی ایف گیس یومیہ درکار ہے۔
پاکستان میں گیس کے 57 فیصد گھریلو اور کمرشل صارفین ایسے ہیں جوکہ گیس بہت کم استعمال کرتے ہیں اور ان سے صرف 12 فیصد ریونیو ملتا ہے۔ جس میں انفرااسٹرکچر کی دیکھ بھال بھی ڈھنگ سے نہیں ہوسکتی جبکہ دوسری جانب زیادہ گیس استعمال کرنے والے 7 فیصد صارفین مجموعی گیس مارکیٹ کا 52 فیصد ریونیو فراہم کرتے ہیں۔
ایک طرف جہاں ملک میں گیس کی قلت ہے وہیں دوسری طرف گیس کی قیمت بھی نہایت کم تھی۔ میرے گھر میں اگر بجلی کا بل 14 ہزار روپے آرہا ہے تو گیس کا بل محض 500 روپے کے آس پاس ہی آتا تھا۔ مگر حکومتیں سیاسی فوائد کے لیے گیس کی قیمت میں اضافہ نہیں کررہی تھیں جس سے گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ بڑھتے بڑھتے 2 ہزار 900 ارب روپے تک کا پہنچ چکا تھا۔ اسی لیے گزشتہ دوسال میں وفاقی حکومت، چاہے وہ پاکستان تحریک انصاف کی ہو، پی ڈی ایم کی ہو یا پھر نگران حکومت سب ہی نے گیس کے شعبے میں اصلاحات اور گیس کی قیمت میں اضافے کے اقدامات کیے ہیں۔
آئی ایم ایف نے حکومت کو قرض کی قسط کے اجرا کی شرط کو گیس کی فروخت میں ہونے والے نقصان سے منسلک کردیا تھا۔ حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ Circular Debt Management Plan (CDMP) پر عمل کرے جس کے بعد پی ڈی ایم حکومت نے جولائی میں گیس کی قیمتیں بڑھائیں اور مقامی گیس کی فروخت میں بڑھتے ہوئے گردشی قرضے کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ مقامی سطح پر حاصل ہونے والی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے کہا کہ کوشش ہوگی کہ غریب صارفین پربوجھ نہ ڈالاجائے تاہم 0.9 مکعب میٹر سے زائد گیس استعمال کرنے والے صارفین کے لیے گیس مہنگی ہوگی۔
مگر گیس کے شعبے میں صرف مقامی سطح پر نقصانات نہیں ہورہے تھے بلکہ درآمدی گیس کو بھی سستے داموں فروخت کیا جارہا تھا۔ اس پر حکومت نے آئی ایم ایف سے طے کردہ weighted average cost of gas pricing (WACOG) کے ذریعے درآمدی آر ایل این جی اور مقامی گیس کی قیمتوں کو مکس کرتے ہوئے اوسط قیمت پر گیس کی فروخت پر آمادگی ظاہر کی تھی اورگزشتہ سال فروری میں قانون سازی بھی کی تھی۔
اس کی منظوری دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے وزیرِ توانائی حماد اظہر کا کہنا تھا کہ اس قانون کی منظوری اور عمل درآمد سے ملک میں توانائی کا تحفظ ممکن اور گیس کے شعبے میں نقصانات اور نقائص کو ختم کیا جاسکے گا جبکہ ساتھ ہی درآمدی گیس کی فراہمی کو بھی بہتر بنایا جاسکے گا۔ ملک میں مقامی گیس 70 فیصد جبکہ درآمدی ایل این جی 30 فیصد استعمال ہوتی ہے اس قانون کے مطابق مقامی سطح پر گیس کی اوسط قیمت کے ذریعے درآمدی اور مقامی گیس کو 50، 50 فیصد کے تناسب پر لایا جائے گا۔ تاہم چند تکنیکی اور قانونی وجوہات کی بنا پر اس قانون پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوپایا ہے۔
نگران حکومت نے بڑھتے ہوئے گردشی قرضے، گیس کی فروخت سے منسلک کمپنیوں کے بڑھتے ہوئے خسارے کو دیکھتے ہوئے اور آئی ایم ایف کے قسط کے اجرا کے دباؤ کی وجہ سے گیس کی اوسط قیمت کے حوالے سے اس قانون پر جزوی عمل درآمد کیا ہے۔ اس کے بعد حکومت کا دعویٰ ہے کہ گیس کے شعبے میں موجود گردشی قرضے میں اضافہ صفر ہوجائے گا۔
نگران حکومت نے گیس کی قیمت میں یکمشت 194 فیصد اضافہ کیا ہے جوکہ پاکستان کی تاریخ میں گیس کی قیمت میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمت میں 174، کمرشل صارفین کے لیے 137 فیصد جبکہ سیمنٹ سیکٹر کے لیے 193 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
حکومت نے گیس کی قیمت میں یکمشت 194 فیصد اضافہ کیا ہے— تصویر: اے ایف پی
وفاقی وزیر توانائی کا کہنا ہے کہ درآمدی ایل این جی 12.50 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پڑتی ہے جوکہ 3 ہزار 700 روپے بنتے ہیں جبکہ گیس کی فراہمی 1100 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے کی جارہی ہے۔ اس طرح سالانہ 350 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ یعنی صرف گیس کی فروخت میں حکومت کو یومیہ ایک ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
گیس کی قیمت کے حوالے سے حکومت کی تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 24-2023ء کے لیے گیس کے شعبے میں ریونیو کا تخمینہ 513 ارب روپے ہے۔ مگر مقامی گیس کی فروخت میں 191 ارب روپے اور آر ایل این جی کی فروخت میں 210 ارب روپے کا خسارہ متوقع ہے۔ یعنی مجموعی طور پر 400 ارب روپے کا خسارہ گیس سیکٹر میں متوقع تھا جس کی حکومتی بجٹ سے ادائیگی کرنا ناممکن تھا۔ اس لیے حکومت نے ایک اصول اپنایا جس میں گیس کی قیمتِ خرید اور قیمتِ فروخت کو مساوی کردیا تاکہ اس خسارے کو کم کیا جاسکے۔
توانائی کے شعبے کو پاکستان میں مہنگائی یا افراطِ زر کی بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ پیٹرولیم یا گیس کی قیمت سے ملک میں مہنگائی بڑھتی ہے۔ تاہم عارف حبیب گروپ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گیس کی قیمت میں اضافے سے افراطِ زر پر زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوں گے کیونکہ گیس کا شعبہ کنزیومر پرائس انڈیکس یا سی پی آئی کا محض اعشاریہ 7 فیصد ہے جس سے انفلیشن میں اعشاریہ 7، 7 فیصد کا اضافہ متوقع ہے جوکہ بہت زیادہ نہیں ہے۔ اس لیے مالی سال میں افراطِ زر 24.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
گھریلو صارفین پر اثرات
گیس کی قیمت میں اضافے سے گھریلو صارفین پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اس حوالے حکومت کے جاری کردہ ٹیبل کے مطابق وہ صارفین جن کا ماہانہ بل 121 سے 250 روپے کے درمیان تھا اب انہیں گیس کے بل کی مد میں کم از کم بل 400 روپے ادا کرنا ہوں گے۔ 300 سے 1200 روپے ماہانہ بل والے صارفین کو کم از کم 1000 روپے بل دیا جائے گا جبکہ 1600 سے 4000 والے صارفین کا کم از کم بل 2000 روپے ہوگا۔
حکومت نے مختلف صنعتوں کے لیے ٹیرف مختلف رکھا ہے اس لیے ہر صنعت پر اثرات بھی اسی تناسب سے مرتب ہوں گے۔ نگران حکومت کا کہنا ہے کہ صنعتوں کے لیے ٹیرف مقرر کرتے وقت ریجنل کمپیٹیٹو انرجی ٹیرف کا تعین کیا گیا ہے جس میں بھارت، بنگلہ دیش اور ویتنام کے گیس ٹیرف کی بنیاد پر نئی قیمت کا تعین کیا گیا ہے۔
سیمنٹ سازی، فولاد اور کیمیکلز کے کارخانوں کو گیس 1200 روپے سے بڑھا کر 2600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو میں فراہم کی جائے گی۔ یعنی سیمنٹ سیکٹر کے لیے گیس کی قیمت 117 فیصد بڑھائی گئی ہے۔
فرٹیلائزر کے شعبے میں گیس کا استعمال ایندھن اور فیڈ اسٹاک کے طور پر ہوتا ہے۔ فیڈ اسٹاک کے لیے فرٹیلائزر کے شعبے میں گیس کی قیمت 510 روپے سے بڑھا کر 580 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کردی گئی ہے۔ یعنی صرف 70 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ فرٹیلائزز میں بطور ایندھن استعمال کے لیے گیس کی قیمت 1500 روپے سے بڑھا کر 1580 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کردی گئی ہے۔ یعنی صرف 80 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
فرٹیلائزر سیکٹر میں گیس کی قیمت کم بڑھانے پر سینیٹر مصدق ملک نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ مصدق ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فرٹیلائزر کے کارخانے 50 فیصد منافع کما رہے ہیں جبکہ دنیا میں فرٹیلائزر کے کارخانے 7 فیصد منافع کماتے ہیں۔ نئے ٹیرف کے تحت فرٹیلائزر کارخانوں کو 70 سینٹ کی گیس دے رہے ہیں۔ جبکہ وہ ملک جہاں گیس وافر مقدار میں دستیاب ہے وہاں فرٹیلائزر سیکٹر کو پاکستان سے کہیں زیادہ مہنگی گیس دی جاتی ہے۔
مصدق ملک کے مطابق فرٹیلائزر کارخانوں کو سعودی عرب 2 ڈالر، قطر 3 ڈالر اور بحرین 4 ڈالر کی گیس دیتا ہے۔ سستی گیس کا فائدہ صرف 4 کمپنیوں کو پہنچ رہا ہے، لوگوں کو نہیں پہنچ رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسان کو سستی کھاد دینی ہے تو کمپنیوں کو سستی گیس کے بجائے کسان کو براہِ راست سبسڈی دی جائے کیونکہ سستی کھاد ایران اور افغانستان منتقل ہورہی ہے۔
پاکستان میں ایندھن سے متعلق تمام کمپنیاں جیسے او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، پی ایس او، سوئی سدرن گیس کمپنی، سوئی ناردرن گیس کمپنی، ان سب کو گردشی قرضے کی وجہ سے شدید مالیاتی بحران کا سامنا ہے اور یہ نہ صرف اپنے یومیہ کاروبار کو چلانے میں مشکلات کا شکار ہیں بلکہ سرمائے کی قلت کی وجہ سے وہ طویل عرصے سے اپنی صلاحیت کے مطابق گیس کی تلاش کے لیے کھدائی کرنے سے بھی گریز کررہی تھیں۔
گیس کی قیمت میں اضافے سے ملک میں ایل این جی درآمد کرنے والے ادارے کے طور پر پی ایس او کی مالیاتی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان اسٹیٹ آئل کو آر ایل این جی کی عدم ادائیگیوں کی وجہ سے سرمائے کی قلت کا سامنا تھا۔ ایس این جی پی ایل کی جانب سے پی ایس او کو واجب الادا رقم 298 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے اور پی ایس او کو چلانے کے لیے 423 ارب روپے قرض لینے کے باوجود حکومت نے ادارے کو ڈیفالٹ سے بچانے کی غرض سے ایک ہنگامی مالیاتی پیکج بھی دیا۔
گیس کے ٹیرف میں اضافے سے گیس ڈیولپمنٹ سرچارج یا جی ڈی ایس میں بھی اضافہ ہوگا اور عارف حبیب گروپ کی تحقیق کے مطابق جی ڈی ایس میں 57 ارب روپے کا اضافہ متوقع ہے۔
گیس کی قیمت میں اضافے اور حالیہ ٹیرف ایڈجسٹمنٹ سے گیس کمپنیوں کے کیش فلو میں بہتری آنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں اور آئندہ چند ماہ میں تیل و گیس کی تلاش سے وابستہ او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کے کیش فلو میں اضافہ متوقع ہے۔ جون 2023ء میں او جی ڈی سی ایل کو 511 ارب روپے اور پی پی ایل کو 456 ارب روپے کی وصولیاں کرنا تھیں۔ اب اگر ان کمپنیوں کے سرمائے میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ تیل و گیس کی تلاش کے لیے مزید سرمایہ کاری کریں گی اور یوں نئے کنووں کی کھدائی متوقع ہے۔ اس سے آئندہ چند سالوں میں گیس کی فراہمی بڑھنے کے امکانات ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا گیس کے شعبے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے گیس کی قیمت میں اضافہ کافی ہے؟ اس کا جواب ہے ’نہیں‘۔ گیس کے شعبے میں اسی طرح کی اصلاحات کی ضرورت ہے جس طرح بجلی کے شعبے میں کی گئی ہیں۔ گیس کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری کو فروغ دیتے ہوئے ترسیل اور تقسیم کے شعبے میں متعدد کمپنیاں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت ملک میں گیس کی ترسیل اور تقسیم کے لیے دو الگ الگ کمپنیاں سوئی سدرن اور سوئی نادرن کام کررہی ہیں جوکہ ویل ہیڈ سے گیس لےکر اس کی ترسیل اور تقسیم کرتی ہیں۔ مگر یہ دونوں کمپنیاں بہت بڑی ہیں اور ان کے مسائل بھی بہت بڑے ہیں۔ سب سے پہلے گیس کی ترسیل اور تقسیم کو الگ کیا جانا چاہیے اور گیس کی ٹرانسمیشن کمپنیاں قائم کی جانی چاہئیں۔ اس کے علاوہ گیس کی تقسیم کے نظام میں بھی اصلاحات کرتے ہوئے سوئی سدرن اور نادرن کو ڈویژن کی سطح پر گیس ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں تبدیل کرنا چاہیے تاکہ انہیں نجی شعبے کو باآسانی فروخت کیا جاسکے۔