جون ایلیا : کلاسیک سے سوشل میڈیا تک

اردو ادب کے ممتاز شاعر و ادیب اور دانشور جون ایلیا کی 21ویں برسی 8نومبرکو منائی جائے گی اس سلسلے میں اس عظیم شاعر کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ملک بھر کے ادبی حلقوں میں تعزیتی سیمینارز،مذاکرے اور مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جائے گا۔ فلاسفر اور سوانح نگارجون ایلیااپنے منفرد انداز تحریر کی وجہ سے جانے جاتے تھے وہ معروف شاعر،صحافی اور دانشور رئیس امروہوی اور سیّد محمد تقی کے بھائی تھے انہوں نے پچاس ہزار سے زائد اشعار کہے اور چالیس سے زائد نایاب کتب کے تراجم کیے ان کا علم ایک انسائیکلو پیڈیا کی مانند تھا۔
پسے ہوئے طبقے کے ترجمان شاعرجون ایلیا14دسمبر 1937ء کو پیدا ہوئے ان کے والد محترم علامہ شفیق حسن ایلیا ادب سے گہرا لگائو رکھتے تھے اس علمی ماحول میں جون ایلیا نے پرورش پائی جون ایلیانے اپنا پہلا اردو شعر محض 8برس کی عمر میں کہا۔
ان کی معروف تصانیف میں ’’شاید‘‘، ’’گویا‘‘، ’’یعنی‘‘، ’’گمان‘‘، ’’لیکن‘‘ اور دیگر قابل ذکر ہیں۔

جون ایلیا کواردو، انگریزی،عربی،فارسی،سنسکرت،عبرانی اور دیگر زبانوں پر دسترس حاصل تھی انہوں نے شاعری کے علاوہ فلسفہ،منطق،اسلامی تاریخ،سائنس اور مغربی ادب کے تراجم پر بھی وسیع کام کیا ہے انہوں نے دنیا کی40 کے قریب نایاب کتب کے تراجم کیے انہوں پچاس ہزار سے زائد شہر کہے جن میں زیادہ تر منظر عام پر نہ آسکے ہیں۔ جون ایلیا کا علم کسی انسائیکلو پیڈیا کی طرح وسیع تھااس علم کا نچوڑ ان کی شاعری سے بھی عیاں ہے۔جون ایلیا 8نومبر 2002ء کو 72برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔

جون ایلیا اردو کے واحد شاعر ہیںجو صرف کتابوں کی حد تک نہیں پڑھے جاتے بلکہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میںسوشل میڈیا پرسب سے زیادہ پڑھے اور چاہے جانے والے شاعر ہیں جس سبب غیر اردو داں طبقوں میں بھی جون ایلیا کی مقبولیت عام ہے ۔ جون ایلیا اس عہد کی پیداوار ہیں جب ترقی پسند تحریک اپنے عروج سے زوال کی طرف بڑھ رہی تھی اور جدیدیت کا چراغ روشن ہو رہا تھا۔ جون ایلیاجن کا اصل نام سید سبط اصغر نقوی تھاشہر امروہہ ۱۴ دسمبر ۱۹۳۱ میں ان کی ولادت ہوئی ۔جون ایلیا کے والد شفیق حسن ایلیا عربی ،فارسی ،سنسکرت،انگریزی اور عبرانی زبان کے عالم تھے ۔جون ایلیا کے بڑے بھائی رئیس امروہی شاعر،صحافی،دانشور،اور مفکر اور دوسرے بھائی سید محمد تقی عالمی شہرت یافتہ فلسفی تھے۔جون ایلیا کی ابتدائی تعلیم اپنے والد کی نگرانی میں ہوئی ۔اردو ،فارسی کے علاوہ فلسفہ میں ایم ۔اے کیا۔ان کے گھر کا ماحول تعلیمی ،مذہبی اور روایت پسند تھا ۔گھر میں سائنس،فلسفہ،مذہب،فنون لطیفہ ،تاریخ اور علم فلکیات پر گفتگو ہوتی تھی ۔غرض کے جون ایلیا کو تخلیقی ذہن وراثت میں ملا تھا۔جون ایلیا کو عربی ،انگریزی ،فارسی،سنسکرت،اور عبرانی میں اعلی مہارت حاصل تھی۔وہ ایک شاعر،فلسفی،نثرنگار،مدیر،سیرت نگار،اسکالراور مترجم تھے۔ان کے خاندانی پس منظر کا براہ راست اثر ان کی شاعری پر ہوا۔یہی سبب ہے کہ بچپن سے ہی شعر گوئی کی جانب راغب ہوئے ۔بقول جون ایلیا انھوں نے ۸ سال کی عمر میں پہلا شعر کہا۔لیکن باقاعدہ طور پر ان کی شاعری کا آغازآزادی کے بعد ہوا۔جس کا ذکر ’’شاید ‘‘ کے دیباچہ میں خود کیا ہے۔

                                    ’’میں نے تقسیم کے بعد ہی صحیح معنی میں شاعری شروع کی‘‘

                                                                                         شاید،ص۲۴

         جون ایلیا کی شعری تخلیقات میں شاید۱۹۹۰،یعنی۲۰۰۳،گمان۲۰۰۴،گویا۲۰۰۸شامل ہیں ۔ نثری تخلیق فرنود۲۰۲انشائیوں اور مضامین کا مجموعہ ہے اس کے علاوہ راموز ۲۰۱۶ایک طویل نظم ہے ۔جون ایلیا بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں مگر انھوں نے نظم ،قطعات ،مرثیے ،میں بھی طبع آزمائی کی۔ مختصر و طویل دونوں طرح کی نظمیں کہیں۔جہاں تک جون ایلیا کی غزل کا تعلق ہے تو اس میں ہمیں خدا،کائنات،اور زندگی کے تمام نکات نظر آتے ہیں۔ساتھ ہی وہ انسان و کائنات کے تمام اسراراموز کو شاعری میں حل کرنے میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ان کی شاعری میں جذبات کی فراوانی ،احساس وخیال کی ندرت ،اور ذہنی وفکری رچائوکے ساتھ اسلوب کی جدت اور طرز اظہار کی دلفریبی کا احساس ہوتا ہے ۔زبان و بیان پر انھیں قدرت حاصل تھی ۔ان کے کلام میں فارسی ،عربی،ہندی،سنسکرت،انگریزی اور پراکرت الفاظ جا بجا موجود ہے ۔

         ہر ادیب و شاعر کی تخلیق پر اس کے عہد کے خارجی یا داخلی نقوش نمایاں ہوتے ہیں۔اس کی تخلیق اپنے عہد کا آئینہ ہوتی ہے ۔جون ایلیا کی شاعری میں بھی غم جاناں اور غم دوراں کا درد نمایاں ہے ۔تقسیم ہند کے بعد جہاں بر صغیر میںبڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہوئیں وہیں جون ایلیا کی زندگی بھی بری طرح متاثر ہوئی ۔ اپنوں کی جدائی ،تقسیم ہندکا درد الم ،فسادات کا خوف ناک منظر ان کی شاعری میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہے۔چند مثالیں:

وہ جو تعمیر ہونے والی تھی

لگ گئی آگ اس عمارت کو

پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں

زمین کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم

پسند آیا بہت ہمیں پیشہ

خود ہی اپنے گھروں کو ڈھانے کا

         دراصل جون ایلیا کی جوانی میں ہی پاکستان وجودمیں آگیا تھا۔لہذا ۱۹۵۷ کو اپنے شہر امروہہ ہندوستان سے ہجرت کرپاکستا ن کے شہر کراچی منتقل ہوگئے ۔ایک طرف تقسیم ہند کا درد دوسری طرف ہجرت کے کرب نے جون ایلیا کی زندگی کو درہم برہم کردیا غرض کہ یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ بن گیا۔۔ہجرت کا درد ان کے لیے ناسور ثابت ہواجس کی تصدیق ان کی شاعری میںموجود ہجرت کی المناک داستاں سے ہوجاتی ہے ۔ہجرت کے تجربے کو جس شدت سے جون ایلیا نے محسوس کیا اسی شدت الفاظ سے وہ اسے اپنی شاعری میں بیاں کر دیتے ہیں۔پاکستان جانے کے بعد جون ایلیا کی شاعری کو سمت ورفتار ملی جس میں حقیقی دنیا کے بھدے رنگ عیاں ہوتے ہیں۔یہ اشعار ان کے قلبی جذبات کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔

اب ہمارا مکاں کس کا ہے

ہم تو اپنے مکاں کے تھے ہی نہیں

اب وہ گھر ایک ویرانہ تھا ،بس ویرانہ زندہ تھا

سب آنکھیں دم توڑ چکی تھیں میں تنہا زندہ تھا

تیری بانہوں سے ہجرت کرنے والے

نئے ماحول سے گھبرا رہے ہیں

         جون ایلیا نے اپنے شہرسے جدائی کا غم اپنی شاعری میں زندہ رکھا یوں لگتا ہے جیسے جون ایلیااپنے شہر امروہہ کوکبھی بھول نہ سکے ۔دراصل پاکستان میں بھی اس وقت کے شعری منظرنامے میں تقسیم ،ہجرت ،فسادت جیسے مضامین عام تھے۔ان کے کلام جابجا اپنے وطن کی گلیوں ،درگاہوں،ندیوں،مدرسوں وغیرہ کی خوبصورت تصویر کشی ملتی ہے ان کے کلام میں امروہہ کی ندی ،گنگا جمنا سے متعلق اشعار غور فرمائے  ۔

اس سمندر پہ تشنہ کام ہوں میں

بان تم اب بھی بہہ رہی ہو کیا

مت پوچھوکتنا غمگیں ہوں،گنگاجی اور جمنا جی

میں جو تھا اب میں وہ نہیں ہوں گنگا جی اور جمنا جی

         جون ایلیانے جو بھی موضوع اٹھایا اسے جاذبیت کے ساتھ شعر کے سانچے میں ڈھال دیا۔ان کے یہاںنیا لہجہ ،نیا اسلوب و آہنگ نظر آتا ہے جس سے اردو شاعری میں بیش بہا اضافہ ہوا۔اردو غزل سے رشتہ برقرار رکھتے ہوئے نئے مضامین وموضوعات سے روشناس کیا اورروایت سے بغاوت بھی کی ۔یہی سبب ہے کہ ان کے کلام میں ایک خاص قسم کا کلاسکی رچاو پایا جاتا ہے ۔مگر ا س رچاو میںایک انوکھا اور منفرد اندازملتا ہے ۔ان کا لب و لہجہ تیز بیباک ہونے کے سبب اپنے اندر ایک ایسی سچائی لیے ہوئے جس سے قاری متا ثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا ۔ دراصل وہ اپنی زندگی سے متعلق واقعات و کیفیات کو بہت بے باک انداز میں پیش کرتے ہیں ۔سیدھی اور دو ٹک بات میںاپنے احساسات و جذبات کو بیان کرنے میں انھیں قدرت حاصل ہے ۔ان کی شاعری عام انسان کی زندگی،ا سکے غم،غصہ،عشق ،انتشار،محبت ،نفرت،جدائی ،بے چینی،لاتعلقی ،جیسی کیفیات ، جذبات واحساسات سے جڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔یوں لگتا ہے یہ کڑواہٹ ،کیفیت سے ہم گزر رہے ہیں اور یہ ہمارے دل کی ہی بات ہے ۔

یہ تو عالم ہے خوش مزاجی کا

گھر میں ہر شخص سے الجھتا ہوں میں

نہیں دنیا کو جب پروا ہماری

تو پھر دنیا کی پرواہ کیوں کریں ہم

         نئی غزل میں خوف ،تنہائی ،اداسی،ذہنی وفکری انتشار،اخلاقی اقدار کی پامالی،بے گانگی،رشتوں کے ختم ہونے کا کرب،ذات کی تلاش ، جیسے موضوعات نظر آتے ہیں۔جدیدیت سے وابستہ غزل گو شعرا نے ان تمام موضوعات کو اپنے طور سے برتا۔لیکن جون ایلیا نے جس خوبی اور سادگی کے ساتھ ان موضوعات کوشعری سانچے میں ڈھالا جس نئی معنویت کے ساتھ پیش کیا وہ شاذونا درہے ۔

مستقل بولتا ہی رہتا ہوں

کتنا خاموش ہوں میں اندر سے

کل دوپہر عجب سی اک بے دلی رہی

بس تیلیاں جلا کے بجھاتا رہا ہوں میں

سب سے پر امن واقعہ یہ ہے

آدمی آدمی کو بھول گیا

         عشق وعاشقی کے معاملات میں جون ایلیا بھی ایک غیر روایتی عاشق اور وصل سے بیزارنظر آتے ہیں ۔یہ غیر روایتی عاشق کا عکس تو ترقی پسند تحریک کے شروع ہونے کے ساتھ ہی اردو شاعری میں نظر آنے لگا تھا ۔جس کی کئی مثالیں ترقی پسند شعراء اور بعد میں جدیدیت پسند شعرا کے یہاں مل جاتی ہیں ۔لیکن جون ایلیا اس معاملے میںغیر روایتی عاشق کی طرح نہ صرف محبوب سے سوال و جواب کرتے نظر آتے ہیں بلکہ ترک عشق کا اظہار بھی چاہتے ہیں ۔محبوب سے قطع تعلق ہونااور وصل سے بیزاری کا اظہار کرنے میں انھیں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی ۔دراصل انسان کی فطرت کا اصل رنگ یہی ہے ۔ یقینا محبت قیمتی جذبہ ہے لیکن اور اس کی قیمت ادا کرنا آسان نہیں ہے ۔کہنے کا مطلب یہ ہے جس طرح ہر شہ کا زوال ہے اور تغیر کائنات کا اصول ہے بلکل اسی طرح احساس،جذبات بھی فانی ہیں۔ جو ایک وقت کے بعد ختم ہوجاتے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ عشق کے رویے میں بھی تبدیلی ہونا بھی لازمی ہے ۔انسانی فطرت یہی ہے کہ وہ چاہے کتنی ہی قربانیاں یا محبتیں نچھاور کرلے آخر میں اس کے ذہن ودل کو چین وعافیت ہی چاہیے اور اس حقیقت کو سچائی سے بیان کرنے کا سہرا جون ایلیا کے سر ہے ۔

ترک الفت ہے کس قدر آسان

آج تو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں

اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے

یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی

جو زندگی بچی ہے اسے مت گنوایے

بہتر یہی ہے آپ ہمیں بھول جائیے

اب یہ صورت ہے جان جاں کہ تجھے

بھولنے میں مری بھلائی ہے

         عشق کے معاملے میںجون ایلیا اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کا ذکر بڑی ہنر مندی کے ساتھ کرتے ہیں ۔جون ایلیا نے اس موضوع کو نئی جہت سے آشناکیا۔ہجر کا جشن ،وصل میں فرقت ،وصل کا صدمہ جیسے مضامین کو نئے اور اچھوتے انداز جون ایلیا کے تخیلی پرواز کے ضامن ہیں۔

میں بھی اب بے گلہ ہوں اور تم بھی

یعنی کچھ بھی نہیں بچا جانا

کیا ستم ہے کہ اب تیری صورت

غور کرنے پہ یاد آؒتی ہے

خموشی سے ادا ہورسم دوری

کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

         جون ایلیا ایک منفرد اسلوب کے شاعر تھے ۔ان کے یہاں مختلف نوع کے رنگ اور نئے مضامین و موضوعات موجود ہیں جو اردو غزل کی روایت میں اس سے پہلے نہیںملتے۔شاعراپنے احساسات و جذبات کو خوبصورت انداز میں پیش کرنے کے لیے صنائع و بدائع کا استعمال کرتا ہے ۔جون ایلیابھی اپنے کلام کو خوبصورت بنانے اور قلبی واردت کو بیا ن کرنے کے لیے تلمیحات،استعارہ ،تشبیہ ،صنعت تضاد،پیکر تراشی،مراعات نظیر،صنعت اشتقاق،سہل ممتنع وغیرہ کا بخوبی استعمال کرتے ہیں اور اس طرح کہ اس میں سادگی قائم رہتی ہے ۔محاسن کلام کا استعمال فطری نظر آتا ہے جس میں کوئی بناوٹ نظر نہیں آتی ۔ شاعری میں بے جا صنائع وبدائع سے اجتناب نظر آتاہے ۔مضمون کو شعریت میں ڈھالنے کے ہنر سے جون ایلیا بخوبی واقف ہیں۔ اپنے تجربات وخیالات کو شعر میں اس خوش اسلوبی اور کیفیت کے ساتھ نظم کرتے ہیںکہ قاری متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پاتا۔ چند مثالیں پیش ہیں۔

اڑے جاتے ہیں دھول کی مانند

                             (آندھیوں پر سوار تھے ہم تو                      (شبیہ

دوا سے فائدہ مقصود تھا ہی کب کہ فقط

                            (دوا کے شوق میں صحت تباہ کی میں نے             (استعارہ

بے دلی کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے

                              (صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے              (صنعت تضاد

ایک تو اتنا حبس ہے پھر میں سانس رو کے بیٹھا ہوں

                            (ویرانی نے جھاڑو دے کے گھر میں دھول اڑائی ہے          (پیکر تراشی 

تنہائی کا اک جنگل ہے سناٹا ہے اور ہوا

                                       پیڑوں کے پیلے پتے ہیں نغمہ سرائے شام خزاں             (منظر نگاری )

مست ہوں میں مہک سے اس گل کی

                                       جو کسی باغ میں کھلا ہی نہیں                      (مراعات النظیر)

کتنا ڈراؤنا ہے یہ شہر نبود وبود

                                     ایسا ڈراونا کہ یہاں ڈر بھی کچھ نہیں               (صنعت اشتقاق)

         جون ایلیا کی شاعری میں سہل ممتنع کی خوبصورت مثالیں موجود ہیں ۔عام اور سادہ زبان میں شعر اس طرح تخلیق کرتے ہیں جو قاری کے ذہنی کیفیت سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں ۔اس ضمن میں چند اشعار درج ذیل ہیں۔

اس امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ

عمر گزار دیجیے ، عمر گزار دی گئی

کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں

کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مرجائیں گے

         مختصر یہ کہ جون ایلیا کی شاعری میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو انھیں بڑا شاعر بناتی ہیں۔بڑا شاعر وہ ہوتا ہے جو انسانی کیفیت کو احساس کی شدت کے ساتھ قاری یا سامع تک منتقل کردے ۔ جس کی شاعری صر ف کتابوں تک محدود نہیں ہوتی بلکہ ذہن و دل میں رچ بس جاتی ہے ۔ نئی فکر،نیا لہجہ،نیا آہنگ و اسلوب ،مکالماتی فضاکے پہلو،خود کلامی ،اور ایک نئی نہج و مزاج جون ایلیا کی دین ہے ۔ ان ہی خوبیوں کے بدولت انھوں نے اردو شاعری کو مالا مال کیاہے۔ان کی شاعری میں بھر پور کیفیت ،جذبات کی فراوانی ،احساس و خیال کی ندرت اور ذہنی وفکری رچائوکے ساتھ اسلوب کی جدت اور طرز اظہار کی دلفریبی کا احساس ہوتا ہے۔جون ایلیا نے اپنے منفر دانداز بیان سے اردو شاعری کو نیا رنگ و اسلوب عطا کیا۔انسان کی جذباتی ونفسیاتی کیفیات پر جیسے اشعار جون ایلیا نے کہے اردو شاعری کی روایت میں ایسی کوئی مثال نہیںملتی۔شاید اسی لیے وہ کہہ گئے ۔

یہ ہے اک جبر اتفاق نہیں : جون ہونا کوئی مذاق نہیں