علاّمہ اقبال : انسان اور حقانیت

وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا

ہر قطرہ ہے بحر بے کرانہ

مہر و ماہ و انجم کا محاسب ہے قلندر

ایام کا مرکب نہیں مراکب ہے قلندر

         کلام اقبالؔ کی بنیادی خصوصیت رفعت انسانیت اور معراج آدمیت ہے علامہ کا شعری نقطہ عروج احترام آدمیت سے مربوط ہے۔ نیز اس نقطہ سے تصور انسانیت کی شعاع نمود ہوتی ہے۔اور اسی روشنی میںسماجی رویے تشکیل پاتے ہیں۔ اور پھر انسان کے حوالے سے پوری کائنات اقبال کے وسیلے کا اظہار بن جاتی ہے۔ علامہ اقبال کی بابت پروفیسر عبدالحق کا خیال ہے۔

’’دور حاضر میں ہی نہیں بلکہ دنیائے علم و دانش میں ایک بھی شخص اقبال کے برابر نظر نہیں آتا جو انسانی ہیئت اجتماعیہ کے اثبات و استحکام کے لیے اتنا کوشاں اور اس کی منفی مزاحمتوں پر اتنا سخت گیر اور نکتہ چین ہو۔‘‘

   (عبدالحق، تنقید اقبال اور دوسرے مضامین ،صفحہ ۳۵)

         جس شد ومد کے ساتھ علاّمہ اقبال ؔنے انسان اور اس کی حقانیت کو موضوع بنایا اس کی مثال ہم عصر شعراء و ادباء کے یہاں نہیں ملتی۔ علاّمہ اقبالؔ انسانی معاشرے کی صرف نوحہ گری نہیں کرتے بلکہ رفعت انسانی کے راز بھی افشاء کرتے چلے جاتے ہیں ۔وہ صرف نوحہ گری اس لیے بھی نہیں کرتے کہ یاسیت کے نتیجے میں صرف ہیجانی کیفیت پیدا ہوتی ہے جسکے نتیجے میں غور و فکر کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے۔اس لئے علاّمہ اقبالؔ نوحہ گری سے صرف نظر کرتے ہیں۔

         علاّمہ اقبالؔ انسان سے محبت کے داعی بھی ہیں اور اسکی عظمت کے فدائی بھی وہ توقیر آدم کے مبلغ بھی ہیں۔ اور تحقیر انسان سے درد مند بھی ،وہ شاعر بھی ہیں اورمصلح بھی ہیں ،مشیر اور مصحح بھی ،وہ حکیم بھی ہیں اور کلیم بھی،وہ انسانی خودی کے پیغامبر بھی ہیںاور بے خودی کے رمز شناس بھی ،مختصراً یہ کہ علامہ اقبالؔ ایسے ہی بے شمار حیات و کائنات کے راز کے مدینہ بھی ہیں اور باب بھی۔

         علاّمہ اقبال ؔانسان کی انفرادیت کو مستحکم کرکے اجتماعیت کو طاقتور بنانے کے خواہشمند نظر آتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان بے پناہ توانائیوں اور لامحدود صلاحیتوں کا سر چشمہ ہے لیکن یہ توانائیاں اور صلاحیتیں انسانی شخصیت یا خودی میں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ اگر انسان اپنے ان صلاحیتوں کا یا اپنی ذات کا ادراک کرلیں ،عرفان حاصل کرلے تو وہ انسان کامل کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے۔

ضرب کلیم میں علاّمہ اقبالؔ رقمطراز ہیں کہ اگر انسان نے اپنی خودی کو پہچان لیا توموت بھی اس کے قریب نہیں آئے گی شاعرانہ تخیل ملا حظہ فرمائیں۔

زندگی ہے صدف قطرئہ نیساں ہے خودی

وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہرنہ کر سکے

ہو اگر خود نگر و خود گر و خودگیر خودی

یہ بھی ممکن ہے کہ ہر موت سے بھی خبر نہ سکے

  (علامہ اقبال ، کلیات اقبال،صفحہ۴۹۳)

         جب انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے لئے تسخیر کائنات سہل ہوجاتی ہے۔ یعنی وہ کائنات کے تمام عناصر کو اپنے ماتحت لانے کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ اور بندہ اپنے رب سے قریب تر ہوجاتا ہے۔اور پھر بندہ اس مقام پر فائز ہوتا ہے۔ جسکی ترجمانی کچھ اسطرح علاّمہ اقبال ؔکرتے ہیں۔

ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ

غالب و کار آفریں، کارکشا کا رساز

         علاّمہ اقبال ؔنے ’’فوق البشر‘‘ کے بجائے ’’خیرالبشر‘‘ کا تصور پیش کیا اور اس کرونا وباء نے انسانیت کے تمام دروازے وا کردئیے۔ کون کتنا انسانیت کا ہمدرد غم گسار ہے۔ کون کس کی کس طرح مدد و نصرت کرتا ہے اور تحفظ انسانی کے خاطر کتنی کچھ محنت و مشقت کرتا ہے ثابت کردیا ہے۔ان کا مرد مومن یا مرد کامل ازل سے عشق و محبت کا خریدار ہے اور نوح انسانی کی عام ہمدردی کے ساتھ ہر فرد بشر کی عزت و عظمت اقبالؔ کی انسان دوستی کا مطمح نظر ہے۔اس طرح انسانوں کی خدمت ان سے پیار اور دوستی کو خدا کی خدمت اس سے پیار اور دوستی ،انسانیت کا تحفظ اور انسانی جان کو وہ مقدم سمجھتے ہیں۔ اخوت انسانی، تحفظ انسانی ان کے نزدیک اعلیٰ وارفع ہیں۔ مشہور نظم ’’طلوع اسلام‘‘میں فرماتے ہیں۔

تو راز کن فکاں ہے، اپنی آنکھوں ہر عیاں ہوجا

خودی کا راز داں ہوجا،خدا کا ترجماں ہوجا

ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو

اخوت کا بیاں ہوجا،محبت کی زباں ہوجا

یہ ہندی، و ہ خرا سانی، یہ افغانی وہ تورانی

تواے شرمند ۂ ساحل، اچھل کر بیکراں ہوجا

         اس طرح وہ دعوت تدبیر دیتے ہیں کہ ہم اپنی ذات کا ادراک کریں،اپنی حیثیت کو پہچانے اپنی خودی کا ادراک کرے ۔انسانی معاشرے میں ان کی ذات اور اس کا مقام و اہمیت کتنی غیر معمولی ہے۔ انسانی فطرت میں اخوت، محبت،ہمدردی ، غم گساری کے جذبات پیوست ہوتے ہیں۔ اسکی آبیاری کرنا ان کو فروغ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔

         کوتاہ بیں انسان پر آدمیت کا راز منکشف کرنے کے لئے اقبالؔ جو طریقہ بروئے کار لاتے ہیں، اس کا ایک سرا تصور فرد سے جاکر ملتا ہے۔ جب کے دوسرا انسانی معاشرے کی صلاح و فلاح سے جاکر ملتا ہے۔ علامہ اقبال ؔکی شاعری میں ہمیں انسان سے عاجزی کے ساتھ ساتھ بلند پروازی ،فطری برتری، بلند عزائم اور مقصدیت کادرس ملتا ہے۔ وہ انسان کو حقیر نہیں جانتے بلکہ اس کی پروریش کا ایک خاص طریقہ وضع کرتے ہیں۔

آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقان ذرا

دانہ بھی تو ،کھیتی بھی تو، باراں بھی تو،حاصل بھی تو

         اس طرح وہ انسان کو اپنا مقام پہچاننے کی دعوت فکر دیتے ہوئے۔ ’’دہقان‘‘کا لفظ فرد کو جھنجھوڑنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ یعنی ہم اپنی خودی کو نشوونما دے سکتے ہیں۔ آل احمد سرور نے بھی بڑی اچھی بات کہی ہے کہ   ؎

’’خودی عشق و محبت اور فقرواستغنا سے مستحکم ہوتی ہے تو کائنات کی ساری قوتیں انسان کے قبضے میں آجاتی ہیں۔‘‘

   (آل احمد سرور ،اقبال اور ان کا فلسفہ صفحہ۱۶۲)

         گویا یوں کہا جاسکتا ہے کہ اقبالؔ کے فلسفے میں عشقیہ لیَ موجود ہے۔ اور اس لیَ میں صوفیانہ پن کا احساس نہیں ہوتا، بلکہ احساس انسانیت و احترام آدمیت کا راز پوشیدہ معلوم ہوتا ہے۔

تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں میں عیاں ہوجا

خودی کا راز داں ہوجا، خدا کا ترجماں ہوجا

         اس شعر میں احترام آدمیت اور آدمی کے وجود میں پنہاں حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی گئی کہ وہ خود کو پہنچانے ،تاکہ کاروبار حیات میں اسکی اہمیت و افادیت کا پتا چل سکے۔ انسان کی ذمہ داریاں اسکی آنکھو ں میں عیاں ہوجائیں۔ جب وہ اپنے آپ کو پہچان لے گا تو پھر تحفظ بشر اور انسانیت کے تقاضوں کو پورا کرسکے گا۔ وہ انسانوں میں جذبہ باہمی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ورنہ آج کا تو معاشرہ ہر قسم کی طاغوت میں مبتلا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔

ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے نوع انساں کو

اخوت کی زبان ہوجا،محبت کا ترجماں ہوجا

         باہمی اخوت ،محبت اور انسانی رشتہ کے استواری کے سلسلے میں غیر معمولی بیدار مغز ہیں۔ اور اس کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔مثلاً

فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں،اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ

پیوستہ وہ شجر سے امید بہار رکھ

عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے

         ان اشعار سے درس انسانیت باہم الفت و محبت کا پیغام ملتا ہے۔ علامہ اقبال ؔنہ صرف اس کے حامی ہیں بلکہ وہ اس کو فروغ بھی دینا چاہتے ہیں۔ فرد کے رویوں کی بدولت ہی سماج میں بھی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔فرد کی تبدیلی کے بغیر سماج کی تبدیلی کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ ہر چیز پرانسانی عظمت، اسکی زندگی مقدم ہے۔ کائنات میںبھی اس کی عظمت واضح ہے۔علاّمہ اقبالؔ فرماتے ہیں۔

زندگی محبوب ایسی دیدہ ٔ قدرت میں ہے

ذوق حفظ زندگی ہر چیز کی فطرت میں ہے

  (بانگ درا)

         یہ اس نظم کا شعر ہے جو بانگ درا میں ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘کے عنوان سے شامل ہے۔ اس نظم میں بھی وہ موت کی حقیقت سے بحث کرتے ہوئے انسانی روح کی بقا پر متعدد دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ کس طرح انسانی زندگی قدرت کی نگاہ میں محبوب ہے۔ فطرت کی ہر چیز میں زندگی کی حفاظت کا ذوق پایا جاتاہے۔

زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں

ٹوٹنا جس کا مقدر ہو، یہ وہ گوہر نہیں

زندگی محبوب ایسی دیدہ قدرت میں ہے

ذوق حفظ زندگی ہر چیز کی فطرت میں ہے

موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقش حیات

عام یوں اس کو نہ کردیتا نظام کائنات

ہے اگر ارزاں تو یہ سمجھو اجل کچھ بھی نہیں

جس طرح سونے سے جینے میں خلل کچھ بھی نہیں

 (بانگ درا)

         اس نظم میں علاّمہ اقبال نے ستاروں سے دلیل دی ہے کہ وہ کس طرح اربوں سال سے چمک رہے ہیں۔ لیکن انسانی زندگی اتنی مختصر ہے۔ اس میں جو راز پنہاں ہے۔ وہ ایک الگ جو موضوع گفتگو ہے۔ یہاں اس کا محل نہیں ہے۔

         علاّمہ اقبالؔ اس وسیع کائنات میں اس گمشدہ انسان کو ڈھونڈتے ہیں۔ جو اس کائنات کا مقصد وجود ہے۔ انھیں اس بھری کائنات میں اس گو ہر نایاب کی تلاش ہے جو انسان کے مقصد وجود کی وجہ قرار دیا جاسکے۔ اور اس میں انھیں کامیابی نصیب ہوتی ہے اور ان کی نگاہ اس مرد مومن تک جاپہنچتی ہے جو قرآنی نظریئے کا انسان کامل ہے۔

جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی

میرے کلام پہ حجت ہے نکتہ لولاک

         علاّمہ اقبالؔ کہتے ہیں کہ مومن صرف احکام الٰہی کا پابند ہے۔ وہ اس کارگاہ حیات میں زندگی بسر کرتے ہوئے انسانوں کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کرتا ہے۔ وہ اپنی خامیوں ،کوتاہیوں کیلئے تقدیر کا رونا نہیں روتا بلکہ احکام الٰہی کی تکمیل میں اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔

تقدیر کے پابند نباتات و جمادات

مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند

         مومن کی شخصیت میں اللہ کا رنگ نمایاں نظر آتاہے۔ کشادہ قلبی ،عفودرگذر،حلم و بردباری میں وہ خدا کی صفت غفاری کا پرتو ہے۔ اسی طرح کفرو باطل پر غصہ اس کی صفت قہاری کا مظہر ہے۔

ہر لحظ ہے مومن کی نئی شان نئی آن

گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان

قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت

یہ چار عناصر ہو تو بنتا ہے مسلماں

         علاّمہ اقبالؔ کے نزدیک یہ فانی دنیا اور اسکی آسائش انسان کی آخری منزل نہیں ہے۔ بلکہ اس منزل تو اس نیل گوں آسمان سے بہت آگے یعنی چرخ نیلی فام سے آگے ہے۔ وہ رنگ و نسل کے امتیاز سے بالاتر ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک انسانیت اہم ہوتی ہے۔ وہ انسانوں سے محبت کرتا ہے۔ وہ غلط اقدار و افکار کے ساتھ مصالحت نہیں کرتا۔ وہ ظلم و نا انصافی کو برداشت نہیں کرتا۔اہ انسانیت کی تحفظ کی خاظر اپنی جان لڑا دیتا ہے۔

مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے

مومن کا مقام ہر کہیں ہے

         مرد مومن کے نزدیک سب سے قیمتی جوہر انسائیت ہے۔ اور دکھی انسانیت کے لئے اسلام کا زندہ پیغام ہے جو انسان کو انسان کی غلامی سے نجا دلاکر خدائی بندگی کی طرف لے جانے والا ہے اور وہ دنیا اور آخرت میں نجات کی واحد سبیل ہے۔

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن

قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

         ہمیں چاہیے ہم اپنے قلوب میں بسنے والے ہر صنم کو مسمار کریں۔ اور خیرالبشر سے پیار کریں۔ آج ساری انسانیت انسانیت کے لئے ترس رہی ہے۔ آج انسانی جان اور اس کا خون پانی سے بھی زیادہ ارزاں ہوگیا ہے۔ ایک خاص فکر سارے معاشرے کو بلکہ وطن عزیز کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنا چاہتی ہے۔

         علاّمہ اقبال کی سمجھ میں انسان کی حقیقت اور فطرت کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ انسان ہی محور و مرکز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اشرف الخلوقات بنایا ۔اس تمام مظاہر کائنات میں اس کی بلندی اس کی رفعت و عظمت پائی جاتی ہے۔

عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا ،تارہ مہ کامل نہ بن جائے

         علاّمہ اقبال وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے انسان کو مرکز حیات کی حیثیت سے اپنی شاعری کا مرکز و محور بنایا ۔ مرکزی حیثیت سے شاعری میں پیش کیا۔ اور یہ تصور ُبھی انھوں نے قرآن ہی سے اخذ کیا ہے۔ اس کائنات کی وہ عظیم کتاب قرآن ہی نے انسان کو اس کا مقام بتایا ۔ اسے اشرف بتایا تمام حسن فطرت زمین تا آسماںساری چیزیں اس کے تصرف میں دے دی ۔اور اسی انسان کی تلاش، اس کی بقاء کے لئے اقبال کی روح مضطرب ہے ۔انسانی محبت کا یہ جذبہ کسی اور شاعر کے یہاںہمیں نظر نہیں آتا۔جو علامہ اقبال کے ہاں پایا جاتا ہے۔

         ظہیر غازی پوری لکھتے ہیں۔

’’ایشیائی شاعری میں غالباً اقبال وہ پہلا شاعر ہے جس نے انسان کو کائنات کا مرکز قرار دیا۔‘‘

  (ظہیر غازی پوری، مطالعہ اقبال کے بعض اہم پہلو، نرالی دنیا پبلشنگ دہلی،۲۰۰۳)

         کیونکہ علاّمہ اقبال کے تصور کو روشنی قرآن حکیم سے ملی جس نے انسان کو مرکز کائنات بنایا ہے۔ اور اسی لئے اقبال کی شاعری ان کا دل اس کی محبت، اسکی عظمت اور اسکی بلندی کے لئے بے تاب ہے۔ علامہ اقبال اس جذبہ و محبت سے سرشار ہوکر مختلف عنوانات سے پیغام محبت کو عام کرتے ہوئے انسان کی بقاء کے لئے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ وہ انسان کو اپنے مقام و حقیقت سے آشنا کرانے کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں۔

          انسانی محبت کہ آرزو عظمت انسانی کی بلندی کی تمنا، سر خروئی کی آرزو اقبال کی نظموں میں آشکار ہے جن میں نمایاں نظمیں یہ ہیں۔

         ’’میں اور تو‘‘،’’شمع و شاعر‘‘،’’خضرراہ‘‘،’’شکوہ جواب شکوہ‘‘،’’جبریل و ابلیس‘‘،’’مسجد قرطبہ‘‘ وغیرہ ان تمام منظومات میں وہ انسان کو اپنی حقیقت سے روشناس کرانے کو بے چین و بے قرار نظر آتے ہیں۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ آرزو،جستجو،حرکت و عمل، جدوجہد یہ سب متحرک ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں   ؎

بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے

تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

تو سراپا نور ہے خوشتر ہے عریانی تجھے

اور عریاں ہوکے لازم ہے خود امتحانی تجھے

         انسان کس عظمت کا مالک ہے، اس کا مقام کتنا بلند و برتر ہے اس کائنات میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان تو اپنے مقام سے آگاہ نہیں ہے، تو اپنے آپ سے غافل ہے۔کہتے ہیں    ؎

خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے

یقین پیدا کراے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے

مکاں فانی ،مکیں فانی،ازل ترا ابد تیرا

خدا کا آخری پیغام ہے تو جاوداں تو ہے

         چونکہ خدائے بزرگ و برتر نے انسان کو ہی اپنی محبت کا امین بنایا ہے اس لئے اس کا فرض منصبی ہے کہ وہ دنیا میں محبت پھیلائے، دنیا والوں کے لئے رحمت نہیں اپنی ،ذات کو اخوت، محبت و مساوات کا پیغامبر بنائے   ؎

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی

نہیں تو مرد مسلماں بھی کافروزندیق

         ’’بال جبریل ‘‘ میں ’محبت‘کے عنوان سے ایک نظم ہے۔اس میں بھی اسی مساوات و اخوت کی بات کی ہے   ؎

شہید محبت نہ کافر نہ غازی

محبت کی رسمیں نہ ترکی نہ نازی

وہ کچھ اور شے ہے محبت نہیں ہے

سکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی

یہ جو ہر اگر کار فرما نہیں ہے

تو ہیں علم و حکمت  فقط شیشہ بازی

نہ محتاج سلطان نہ مرعوب سلطاں

محبت ہے آزادی و بے نیازی

         اس نظم میں یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ محبت انسان کو کیا بنادیتی ہے۔ محبت کس قید و بند کا شکار نہیں ہوتی اور نہ وہاں زماں و مکاں کی کوئی قید ہے، بلکہ محبت وہ شئے جو کسی رسم و رواج کی مقید نہیں ہوتی۔

         انسان کی برتری انسان کی عظمت و بلندی کی آرزو اقبال کی شاعری میں نمایاں ہے اور انسا ن کی پوری زندگی کو روشن و تابناک بنانے کا پورا لائحہ عمل بھی بتادیا۔ زندگی سے پیار اور اپنی ذات کو سنوارنا اور نکھارنا بھی بتادیا۔

وجود کیا ہے فقط جوہر خودی کی نمود

کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود تیرا

         قرآن میں بھی خدانے فرمایا ہے کہ۔’’دی ہوئی قابلیت کا استعمال کرکے خود کو بہتر بنائیں ‘‘ ،’’اللہ کی دی ہوئی قابلیت کا اتباع کرو جس پر اللہ تعالی نے لوگوں کو پیدا کیا۔‘‘

         علاّمہ اقبال کے دل میں انسان کا درد، اسکی محبت،اس کے خیر و فلاح کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھاجس نے انھیں انسان ملت و قوم کی بہبودگی اس کے عروج و حقیقی مقام تک رسائی کے لئے نغمہ سرا رکھا۔ تمام آہ و بکا ،نالہ و فریاد اسی آرزو کے لئے ہے۔ انھیں جذبات کی عکاسی ان کی ان نظموں میں ہوتی ہے۔جیسے ’’نالۂ یتیم‘‘،’’تصویر درد‘‘،’’آفتاب صبح‘‘،’’شمع و شاعر‘‘، ’’خضرِ راہ‘‘ وغیرہ ان میں انسانی محبت کی لہر موجزن نظر آتی ہیں۔

مبتلائے درد ہو کوئی عضو روتی ہے آنکھ

کس قدر ہمدرد، سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

         انسان صرف پیدا ہونے، کھانے پینے اور مرجانے کے لئے پیدانہیں ہوا ۔ جب تک وہ اپنی خودی کو عشق کے بحر میں غوطہ دے کر آب دار نہ کرے کائنات کا ہی مسخرر ہے گا جب کہ اللہ نے کائنات کو تسخیر کی قوت اسے عطا کی ہے لیکن اب قوت کو حاصل کرنے کے لئے عمل و عشق کی ضرورت ہے۔

تیری نواسے بے پردہ زندگی کا خمیر

کہ ترے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی

عشق کے مضراب سے نغمئہ تار حیات

عشق سے نور حیات عشق سے نار حیات

ہے یہ مقصد گردش روز گار

کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار

         علاّمہ اقبال جس انسان کے آرزو مند ہیں اس میں عشق کی شدت عمل کا جذبہ اور اپنے فرض کا احساس اپنے منصب جلیلہ کا احساس بھرا ہو، جس سے وہ کبھی غافل نہ ہو، ان تمام خصوصیات کا حامل انسان اقبال کی تمنا ہے۔

تیری قندیل ہے تیرا دل

تو آپ ہے اپنی روشنائی

٭٭٭

         حوالہ جاتی کتب :

  ۱)     کلیات اقبال ،علامہ اقبال

۲)      تنقید اقبال اور دوسرے مضامین،عبد الحق ،۱۹۷۶ء؁

۳)      اقبال اور ان کا فلسفہ،آل احمد سرور

۴)      مطالعہ اقبال کے بعض اہم پہلو، ظہیر غازی پوری ،۲۰۰۳ء؁

۵)      تہذیب الاخلاق اقبال نمبر ، ۲۰۱۹ء؁

۶)      اقبال کا تصور عشق  منتخب منظومات کے حوالے سے،شبنم منیر،  ۲۰۰۸ ء؁

۷)      مختصر تاریخ اردو ادب ،ڈاکٹر سلیم اختر

۸)       اقبال کا تصور دین ،پروفیسر شفیق الرحمٰن ہاشمی

۹)        جوہر اقبال ،محمد حسنین سیّد