انڈونیشیا : ترقی کا راز

دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت، انڈونیشیا میں عوامی لیڈروں کے ساتھ ساتھ قومی افواج اور ان کے سربراہ بھی عوام میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

وجہ یہ ہے کہ انڈونیشیا کو آزاد کرانے میں سیاست دانوں اور فوجی رہنماؤںنے مثالی اتحاد ویک جہتی سے کام لیا اور اپنے وطن کو مغربی استعمار کی گرفت سے آزادی دلوا دی۔ اگر سیاسی میدان میں سوکارنو، محمد حتا، سوتان سجاحریر،تان مالاکا، آغس سلیم، عبدالموعیس جیسے محب وطن سیاست داں سرگرم تھے تو میدان جنگ میں جنرل سودیرمان، جنرل اوریپ سویموہارجو اور کئی دوسرے فوجی افسر میدان جنگ میں پہلے انگریزوں اور پھر ولندیزیوں سے نبرد آزما ہوئے۔ انڈونیشیا کے قومی ہیروز کی فہرست دیکھیے، اس میں کئی جنگجوؤں کے نام نظر آئیں گے۔

آزادی کے بعد انڈونیشی افواج محض دفاع تک محدود نہ رہیں بلکہ عوامی رہنماؤں اور افسر شاہی کے ساتھ ملکی انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ دور دراز دیہات تک صرف فوجی ہی پہنچے اور وہاں اسکول، ہسپتال اور سڑکیں بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

کوئی آفت آتی تو سب سے پہلے فوجی ہی عوام کی مدد کو پہنچتے اور انھیں سہارا دیتے۔ معاشی سرگرمیاں شروع کرنے میں بھی افواج سول حکومت کی مدد کرتی رہیں۔انہی خدمات کی وجہ سے انڈونیشی عوام بعض ناخوشگوار تجربات کے باوجود آج بھی مجموعی طور پہ اپنی افواج کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

طاقت نے بگاڑ ڈالا

انڈونیشیا آزاد ہوا تو اس نے صدارتی نظام حکومت اختیار کر لیا۔ سکارنوپہلے صدر منتخب ہوئے۔ بدقسمتی سے طاقت پا کر وہ کئی لیڈروں کی طرح پٹڑی سے اتر گئے۔

کوشش کرنے لگے کہ ساری طاقتیں اپنی ذات میں مرتکز کر لیں۔ پارلیمنٹ کو اپنی ربڑ اسٹیمپ بنا لیا۔ حتی کہ آدھے ارکان اپنی مرضی سے تعینات کرنے لگے۔

خود کو انڈونیشیا کا تاحیات حکمران بنا ڈالا۔ بری فوج کے جرنیلوں کی طاقت کم کرنے کے لیے کیمونسٹ پارٹی سے تعلقات بڑھا لیے جس کا اثرورسوخ حکومت کے ایوانوں میں تیزی سے بڑھ گیا۔

1965ء کے بعد تو کیمونسٹ اپنی فوج بنانے کی کوشش کرنے لگے۔مقصد یہ تھا کہ اپنے مخالف جرنیلوں کو راہ سے ہٹایا جا سکے۔

اس سے قدرتاً انڈونیشی افواج میں بے چینی پھیل گئی۔وہ دائیں بازو اور بائیں بازو، دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔یو ں حکمران طبقے کے ارکان آپس میں دست وگریباں ہو گئے۔

ان کی ساری توانائی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صرف ہونے لگی۔اس صورت حال نے مملکت میں معاشی بحران پیدا کر دیا۔ عوام مہنگائی، بیروگاری اور غربت کے ہاتھوں تنگ آ گئے اور حکومت پہ تنقید کرنے لگے۔

فوج سول حکومت میں

یکم اکتوبر 1965ء کو کیمونسٹوں کے حامی فوجی افسروں نے بغاوت کر دی اور کئی جرنیل واعلی افسر مار ڈالے۔ان افسروں کا دعوی تھا کہ مقتول جرنیل امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے کے تعاون سے سوکارنو حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔

انھوں نے ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف،میجر جنرل سوہارتو کو سوکارنو کا حامی جرنیل سمجھ لیا، اسی باعث اس کی جان بچ گئی۔ تاہم سوہارتو مغرب وامریکا کا حامی جرنیل تھا۔ وہ یہ بغاوت فرو کرنے میں کامیاب رہا ۔اسی نے پھر رفتہ رفتہ اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔

انڈونیشی جرنیل سمجھتے تھے کہ سیاست داں آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور وہ حکومت کرنے کے قابل نہیں۔ لہذا ان کا فرض ہے کہ وہ بھی حکومت میں شریک ہو جائیں تاکہ ملک معاشی ومعاشرتی ترقی کر سکے۔اسی سوچ کے تحت ’’دویفونسگی‘‘ (Dwifungsi) نظریہ متعارف کرایا گیا۔

معنی یہ کہ افواج کو دفاع کے ساتھ ساتھ ملکی سول انتظام کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔چناں چہ جلد ہی حکومتی نظام میں گاؤں کی سطح تک فوجی افسروں کی تعیناتی ہو گئی۔ پارلیمنٹ میں بھی انھیں نشستیں مل گئیں۔ کئی سرکاری اداروں کے سربراہ فوجی افسر بنائے گئے۔

جنرل سوہارتو کی زیرقیادت سیاست دانوں، فوجی افسروں اور سرکاری افسران پہ مشتمل اس انوکھی حکومت نے مئی 1998ء تک انڈونیشیا کا انتظام سنبھالے رکھا۔ اس نے ملک میں تعلیمی ادارے اور ہسپتال بنائے۔ سڑکیں تعمیر کیں۔ نئی فیکٹریاں لگائیں اور یوں ملک کو پہلے کی نسبت ترقی یافتہ اور خوشحال بنا دیا۔

انفراسٹرکچر وجود میں آیا ، نئی صنعتوں نے جنم لیا اور آبادی کا بڑا حصہ تعلیم یافتہ ہو گیا۔1968ء میں قومی جی ڈی پی 7.5 ارب ڈالر تھا جو 1996ء میں 242 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔اسی لیے کئی انڈونیشی جنرل سوہارتو کو ’’بابائے ترقی‘‘کہہ کر پکارتے ہیں۔

تصویر کا دوسرا منفی رخ یہ ہے کہ جنرل سوہارتو بیشتر حکمرانوں کی طرح طاقت پا کر نشے میں مخمور ہوا اور ساری طاقتیں اپنی ذات میں مرتکز کر لیں۔

وہ کسی آمر کی طرح حکمرانی کرنے لگا۔ مخالفین کے ساتھ سخت سلوک کیا جاتا۔ کرپشن میں بھی ملوث رہا ۔اپنے عزیز اقارب اور دوستوں کو بھی ارب پتی بنا دیا۔یوں چند جرنیلوں کی منفی کارگذاری سے پوری انڈونیشی فوج کے دامن پہ دھبہ لگ گیا۔

سول حکومت سے فوج کی رخصتی

1998ء میں ایشیائی مالیاتی بحران سوہارتو حکومت کے خاتمے کا سبب بن گیا۔ ہوا یہ کہ اس زمانے میں بھی آج کی طرح دنیا بھر میں امریکی ڈالر کی مانگ بڑھ گئی۔سرمایہ کار کمپنیوں اور اسٹاک مارکیٹوںسے سرمایہ نکال کر دھڑادھڑڈالر خریدنے لگے۔اس بنا پر انڈونیشی روپے سمیت تمام ایشیائی کرنسیوں کی مالیت ڈالر کے مقابلے میں گر گئی۔

اس عجوبے نے درآمدی اشیا کافی مہنگی کر دیں اور یوں انڈونیشیا میںمہنگائی بڑھتی چلی گئی۔ آخر عوام احتجاجی مظاہرے کرنے لگے۔ سیکورٹی فورسز نے ان پہ گولی چلا دی۔ مئی 1998ء تک ان مظاہروں کی وجہ سے بارہ سو افراد جان بحق ہو گئے۔ اس فساد نے سوہارتوکو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔

عوام میں سبھی جرنیلوں کے خلاف منفی خیالات جنم لے چکے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ انھوں نے آمر سوہارتو کا راستہ روکنے کے لیے ٹھوس کوششیں نہیں کیں۔اسی لیے نظام حکومت میں اصلاحات متعارف کرانے کی آواز بلند ہو گئی۔

پہلا عوامی مطالبہ یہ تھا کہ سول حکومت میں افواج کا کردار ختم کیا جائے۔ چناں چہ رفتہ رفتہ نظریہ ’’دویفونسگی‘‘ ختم کر دیا گیا۔ حکومتی عہدے چھوڑ کر تمام فوجی افسر بیرکوں میں واپس چلے گئے۔ پارلیمنٹ میں افواج کے لیے مختص نشستیں بھی ختم کر دی گئیں۔ حتی کہ فوجیوں اور پولیس والوں کو ووٹ ڈالنے سے بھی روک دیا گیا۔یوں انڈونیشیا کی سیاست و نظام حکومت میں خصوصاً بری فوج کا کردار تقریباً ختم ہو گیا۔

انڈونیشی فوج میں بعض جرنیل افواج کا کردار دفاع تک محدود کرنا چاہتے تھے۔ ان میں سب سے نمایاں لیفٹینٹ جنرل سوسیلو یدھویونو تھے ۔

وہ پارلیمنٹ میں افواج کے ارکان کے قائد تھے۔ 2000ء میں ریٹائرڈ ہو کر سیاست میں حصہ لینے لگے۔انھیں دیانت داری اور شرافت کے سبب افواج کے علاوہ عوام میں بھی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔سوسیلو یدھویونو تیزی سے سیاسی میدان میں ترقی کی سیڑھیاں چڑھے ۔

صدارتی الیکشن 2004ء میں سوکارنو کی بیٹی ، میگاوتی کو شکست دے کر نئے صدر بن گئے۔ انھوںنے سرکاری عہدوں پہ ریٹائر فوجی افسر مقرر کیے مگر ان کی تعداد بہت کم تھی۔

ترکھان کے بیٹے کا ظہور

مدت پوری ہونے کے بعد2014ء میں سوسیلو یدھویونو صدارتی الیکشن سے باہر ہو گئے۔اس الیکشن میں انھوں نے ایک سابق جنرل، پرابوا سوبیانتو کی حمایت کی جن کا تعلق اشرافیہ سے ہے۔وہ ایک بااثرسابق وزیر کے بیٹے ہیں۔ مگر انھیں ایک ترکھان کے بیٹے، جوکو ویدیدو نے شکست دے کر سنسنی پھیلا دی۔

اس نئے انڈونیشی رہنما کی داستان حیات خاصی سبق آموز ہے۔ان کے والد کا تعلق نچلے طبقے سے تھا۔وہ گلی گلی پھر کر لکڑیاں اور ان سے بنا فرنیچر بیچتے تھے۔نیز فرنیچر بنانے کے بھی ماہر تھے۔خاندان دریا کنارے بنی جھونپڑی میں رہتا تھا۔

جوکو ویدیدو نے سرکاری اسکولوں میں تعلیم پائی۔بارہ سال کے تھے کہ والدکے ساتھ کام کرنے لگے۔انہی سے فرنیچر بنانے کا ہنربھی سیکھا۔یوں لڑکپن ہی سے انھیں محنت کرنے کی عمدہ عادت پڑ گئی۔

اپنی کمائی سے فیسیں دے کر انھوں نے تعلیم بھی پائی اور 1985ء میں جکارتہ کی گاجہ مدا یونیورسٹی سے فاریسٹری انجیئرنگ کی ڈگری لینے میں کامیاب رہے۔وہ پھر تین سال آچے میں کاغذ بنانے والی ایک سرکاری مل میں کام کرتے رہے۔ بعد ازاں واپس اپنے آبائی شہر، سوراکارتا چلے آئے۔

اس وقت تک ستائیس سالہ نوجوان اپنی محبوبہ، انارینا سے شادی کر چکے تھے۔ انرینا ان کی بہن کی سہیلی تھی۔ جوکو اس حسین و ذہین لڑکی پہ فدا ہو گئے۔

اتفاق سے وہ بھی جکارتہ جا کر محمدیہ یونیورسٹی میں تعلیم پانے لگیں۔ یوں ان کا عشق پروان چڑھ گیا۔ دونوں سائیکل چلاتے اور چاٹ کھا کر لطف اٹھاتے۔ 1986ء میں دونوں کی شادی ہوئی۔ان کے تین بچے ہیں، دو بیٹے، ایک بیٹی۔

شادی ہوئی تو اخراجات بھی بڑھ گئے۔ اب جوکو نے اپنا کاروبار کرنے کا سوچا۔انھوں نے بینک سے قرض لیا اور فرنیچر بنانے والی ایک کمپنی، راکابو کھول لی۔اسے چلاتے ہوئے مگر ناتجربے کاری آڑے آئی اور وہ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔

تب جوکو نے اپنے شعبے کے تجربے کار لوگوں سے مشورے و تجاویز لیں اور ان کی روشنی میں کمپنی کو ترقی دینے کی بھرپور کوشش کرنے لگے۔محنت و دیانت رنگ لائی اور ان کا کاروبار انڈونیشیا ہی نہیں بیرون ملک بھی پھیل گیا۔2002ء تک انھوں نے کئی ملکوں میںراکابو کے دفتر قائم کر لیے۔ایک فرانسیسی گاہک ہی نے انھیں ’’جوکووی ‘‘(Jokowi) کا لقب دیا۔اسی سال وہ سوراکارتا فرنیچر مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے سربراہ منتخب ہوئے۔

نظام ِحکومت بدلنے کی تمنا

کاروباری معاملات کے سلسلے میں جوکو صاحب کو یورپی ممالک جانے کا موقع ملا تو انھوں نے دیکھا کہ وہاں بہترین انتظام حکومت (گڈ گورنس)موجود ہے۔ سرکاری دفاتر میں ہر کام جلد ہو جاتا ہے۔ رشوت کا کوئی وجود نہیں۔ گلیاں اور سڑکیں صاف ستھری ہیں۔ تمام شہریوں کو بنیادی سہولیات میسر ہیں اور وہ خوشحال زندگی گذار رہے ہیں۔

قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور کسی کو امیری یا اثرورسوخ کی وجہ سے دوسروں پہ فوقیت نہیں دی جاتی۔

انڈونیشیا کے سرکاری دفاتر میں مگر رشوت کا چلن موجود تھا۔گلیوں میں کوڑا بکھرا رہتا۔ قانون امرا کو ترجیح دیتا۔ یہ تقابل دیکھ کر جوکو ویدیدو نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ نظام حکومت کا حصہ بن کر اپنے وطن کو بھی یورپی ممالک کی طرح رشوت سے پاک کرنا چاہتے تھے جہاں قانون وانصاف کا بول بالا ہو۔

2004ء میں جوکو پی ڈی آئی ۔پی(PDI-P)سے وابستہ ہو گئے۔یہ سیاسی جماعت 1999ء میں سوکارنو کی بیٹی، میگاوتی نے قائم کی تھی۔یہ ایک بڑی پارٹی ہے۔اس کے پلیٹ فارم سے جوکو 2005ء میں سوکارتہ کا مئیر بننے میں کامیاب رہے۔

وہ پھر عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبے بنانے پر جت گئے۔ انھوں نے کوئی تنخواہ نہیں لی بلکہ حکم دیا کہ ان کے خاندان کے کسی فرد کو سرکاری ٹھیکہ نہ دیا جائے۔ جو کو نے شہر کی سڑکوں اور بازاروں کی صفائی کرائی ۔

ٹھیلے والوں کو مارکیٹ بنا کر دی۔ وہ اکثر بازار جا کر لوگوں سے گھل مل جاتے اور ان سے مسائل کی بابت دریافت کرتے۔انھوں نے شہر میں نئے باغات بھی تعمیر کرائے۔ درخت کاٹنے پہ پابندی لگا دی۔ ان سرگرمیوں کی وجہ سے سوکارتہ میں پہلے کی نسبت زیادہ سیاح آنے لگے۔

جوکو اپنی دیانت ، شرافت اور انکسار کی بدولت عوام میں بہت مقبول ہو گئے۔ان کی سعی سے شہر میں جرائم بھی کم ہو گئے۔سبھی شہریوں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے سکیمیں شروع کی گئیں۔ بسیں چلا کر عوام کو سستی ٹرانسپورٹ دی گئی۔

عوامی خدمات کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اگلے الیکشن میں ریکارڈ ’’90 فیصد‘‘ووٹ لے کر مئیر منتخب ہوئے۔انٹرنیشنل سٹی مئیرز فاؤنڈیشن نے انھیں دنیا بھر میں تیسرا بہترین مئیر قرار دیا۔

2012ء میں جوکو نے جکارتہ صوبے کے گورنر کا الیکشن لڑا۔تب تک وہ جاوا جزیرے میں مقبول عوامی شخصیت بن چکے تھے۔لہذا انھیں جیت کی خاطر زیادہ تگ ودو نہیں کرنا پڑی۔گورنر بن کر جوکو نے مسلسل عوام سے رابطہ رکھا۔ یہ ایک عوامی رہنما کی سب سے بڑی خصوصیت ہے کہ یوں وہ عوام کے مسائل سے باخبر رہتا ہے۔

نیز عوام میں گھلنے ملنے سے وہ غرور وتکبر سے بھی دور ہو جاتاہے۔ جو کو نے ’’ہیلتھ جکارتہ کارڈ‘‘جاری کیا جس کے ذریعے ہر شہری مفت علاج کرا سکتا تھا۔ نیز ’’سمارٹ جکارتہ کارڈ ‘‘بھی جاری ہوا تاکہ غریب ومستحق طلبہ وطالبات اس کی مدد سے فیس دے اور درسی کتب خرید سکیں۔

عوام کی بھلائی کے منصوبوں نے جوکو ویدیدوکو پور ے انڈونیشیا میں مقبول بنا دیا۔ اسی لیے 2014ء میں صدراتی الیکشن کا موقع آیا تو میگاوتی نے فیصلہ کیا کہ پارٹی کی طرف سے جوکو یہ انتخاب لڑیں گے۔یہ فیصلہ صائب ثابت ہوا اور جوکو الیکشن جیت کر 1998ء کے بعد پہلے ایسے صدر بن گئے جن کا تعلق اشرافیہ سے نہیںبلکہ عوام سے تھا۔انھوں نے ایک سابق جرنیل کو شکست دی۔

جرنیل بھی مشیر بن گئے

صدر بن کر جوکو عوامی خدمات کا دائرہ کار پورے ملک میں وسیع کر نا چاہتے تھے۔ انھوں نے مگر تنہا پرواز کرنے کے بجائے فیصلہ کیا کہ زیرک و تجربے کار مشیروں کی خدمات حاصل کی جائیں۔

دراصل اپنی کمپنی چلانے کے تجربات نے انھیں یہ سبق سکھایا تھا کہ ذہین وفطین لوگوں سے صلاح ومشورہ کرنا ضروری ہے، یوں درست فیصلے کرنے میں آسانی رہتی ہے۔نیز ناکامی کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ مشوروں کی برکت ہی سے ان کی کمپنی زوال سے نکل کر ترقی کرنے لگی تھی۔ چناں چہ انھوں نے نیک نام لوگوں کو اپنا مشیر بنا لیا۔

خاص بات یہ ہے کہ روایتی پالیسی سے منہ موڑتے ہوئے جوکو نے سابق جرنیلوں کو بھی اپنا مشیر بنا لیا۔یہی نہیں، انھوں نے چند فوجی افسروں کو وزیر بھی بنایا۔دراصل جوکو کا یہ نظریہ تھا کہ سیاست دانوں، جرنیلوں، بیوروکریسی اور عدلیہ کو ہم آہنگی اور اتحاد سے حکومت چلانی چاہیے۔

اس طریق حکومت کا فائدہ یہ ہے کہ حکمران طبقے کے ارکان ایک دوسرے سے نبردآزما نہیں ہوتے ۔ انتظام حکومت بہتر انداز میں انجام پاتا ہے اور مملکت ترقی و خوشحالی کی راہ پہ گامزن ہو جاتی ہے۔جوکو نے بڑی سرگرمی سے اپنے اس نظریے پہ عمل کیا اور ان کی سوچ کامیاب ثابت ہوئی۔

غربت، جہالت اور بیماری کے خلاف جہاد

مشیروں سے مشورے کے بعد جوکو نے دو بنیادی نکات پہ عمل کرنے کا فیصلہ کیا:اول حکومت سے ہر قسم کی کرپشن کا خاتمہ اور دوم ملک بھر میں انفراسٹرکچر کی تعمیر۔ یہ دونوں عمل عوام کی فلاح وبہود کے لیے اپنائے گئے۔کرپشن کے خاتمے سے عوام کو فائدہ پہنچتا اور قانون کی حکمرانی مضبوط ہو جاتی۔جبکہ انفراسٹرکچر کی تعمیر سے عوام کو معاشی فوائد مل جاتے۔

اس طرح جوکو اپنے بہترین مشیروں کی مدد سے اپنی حکومت کی سمت متعین کرنے میں کامیاب رہے جو بہت اہم بات ہے۔پاکستان میں حکومتوں کی تاریخ عیاں کرتی ہے کہ ان کی ناکامی میں اس امر نے بھی اہم کردار ادا کیا کہ وہ آغاز میں اپنی سمت کا تعین ہی نہیں کر سکیں۔

2002ء میں انڈونیشی حکومت نے کرپشن کی روک تھام کے لیے ’’انسداد کرپشن کمیشن‘‘ (Corruption Eradication Commission) بنایا تھا۔ جوکو نے اسے طاقتور بنایا تاکہ سرکاری اداروں میں رشوت ستانی کا خاتمہ ہو سکے اور عوام کو بہتر انداز میں خدمات مل سکیں۔ اس اقدام سے عوام میں جوکو کی مقبولیت میں اضافہ ہو گیا۔

جوکو حکومت نے پھر پورے انڈونیشیا میں انفراسٹرکچر کے منصوبوں کا آغاز کر دیا۔ وسیع پیمانے پربندرگاہیں، ہوائی اڈے،ڈیم،بجلی گھر،سڑکیں،شاہراہیں،پل وغیرہ تعمیر ہوئیں۔ہزارہا میل لمبی پٹڑیاں بنائی گئیں۔جوکو ویدیدو نے ایک نمایاں قدم یہ اٹھایا کہ اپنی عوامی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں ، طاقتور کاروباری شخصیات اور دیگر بااثر لوگوں کو اہم قومی معاملات میں ایک ’’پیج‘‘پر لے آئے۔ یوں حکومت کو یہ آسانی مل گئی کہ اپنے منصوبوں پہ عمل درآمد کر سکے۔

جوکو حکومت کے عاقلانہ و دوررس اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ انڈونیشیا کا جی ڈی پی جو2014ء میں 890 ارب ڈالر تھا، وہ اب بڑھ کر ایک ٹریلین پانچ سو ارب ڈالر تک پہنچ چکا۔گویا محض نو برس میں مملکت کا جی ڈی پی 43 فیصد تک بڑھ گیا۔

دنیا کی تیس بڑی معیشتوں میں پچھلے نو برس کے دوران انڈونیشیا کی معیشت شرح ترقی کے لحاظ سے پانچویں نمبر پہ فائز ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی پیشن گوئی ہے کہ انڈونیشیا کی معیشت اسی رفتار سے ترقی کرتی رہے گی۔

عالمی ادارے ، آئی ایم ایف کے ماہرین کا تو کہنا ہے کہ اگلے پچاس برس تک انڈونیشیا کی معیشت دنیا میں دوسرے نمبر پہ سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ ترقی کرے گی۔چناں چہ 2028 ء تک وہ دنیا کی تیرہویں سب سے بڑی معیشت ہونے کا اعزاز پا لے گی۔

یاد رہے، 2014ء میں انڈونیشیا کی معیشت دنیا میں اٹھارہویں بڑی تھی۔گویا یہ اسلامی مملکت تیزی سے ترقی اور خوشحالی کے سفر پر گامزن ہو چکی۔یہ زبردست کامیابی پانے میں جوکوویدیدوکی بہترین پالیسیوں ہی نے بنیادی کردار ادا کیا۔

انڈونیشیا تیرہ ہزار سے زائد جزائر رکھنے والا ملک ہے۔ بہ لحاظ آبادی دنیا کی چوتھی بڑی مملکت ہے۔ 2014 ء میں جب جوکو حکمران بنے تو تب دور دراز جزائر میں قیام پذیر لاکھوں انڈویشی زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم تھے۔ جوکو نے انفراسٹرکچر کی تعمیر سے تمام سہولیات ان کے دروازے تک پہنچا دیں۔

پچھلے نو سال تک جوکو نے مسلسل ایسے منصوبے بنائے جو عوام کی مشکلات کم کر دیں۔ ان کی زندگی آسان بنا دیں۔ یہی وجہ ہے، انڈونیشی عوام بھی انھیں سر آنکھوں پہ رکھتے ہیں۔ جوکو کی عوامی مقبولت کی شرح 80سے90فیصد کے درمیان رہتی ہے۔

یہ تمام بڑے ممالک کے حکمرانوں میں سب سے زیادہ ہے۔گویا ان حکمرانوں میں جوکو سب سے زیادہ عوام میں مقبول ہیں۔ مودی اور سابق امریکی صدر ٹرمپ کا درجہ بھی بعد میں آتا ہے۔

نکل ایک اہم معدن ہے۔ یہ اسٹین لیس اسٹیل ، بیٹریوں، دھاتی اشیا اور مختلف چیزیں بنانے میں کام آتا ہے۔ انڈونیشیا میں نل کے سب سے بڑے ذخائر واقع ہیں۔ جوکو ویدیدوکی آمد سے قبل انڈونیشی حکومت نکل کوڑیوں کے مول برآمد کر دیتی تھی۔ جوکو نے نکل باہر بھجوانے پہ پابندی لگا دی۔ انھوں نے اعلان کیا کہجو کمپنی نکل کے ذریعے اشیا بنانا چاہتی ہے، اسے انڈونیشیا میں اپنی فیکٹری لگانا ہو گی۔

چناں چہ چین اور امریکا کی کئی کمپنیوں نے نکل سے اشیا بنانے والے کارخانے انڈونیشیا میں لگا لیے۔ اس طرح ہزارہا انڈونیشی لوگوں کو ملازمت مل گئی۔ جبکہ حکومت کو بھی ان کارخانوں سے بھاری ٹیکس ملنے لگا۔

یہی نہیں، مملکت کو قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل ہوا۔پچھلے سال انڈونیشیا نے صرف نکل اشیا کی برآمد سے تیس ارب ڈالر کما لیے۔اس عدد کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ پچھلے سال دنیا کے دوسرے بڑے اسلامی ملک، پاکستان کی کل برآمدات تقریباً بتیس ارب ڈالر تھیں۔ یوں جوکو کی ذہانت و ذکاوت کی بدولت انڈونیشیا کوخوب مالی فائدہ پہنچ گیا۔

پاکستان کے لیے سبق

برادر اسلامی مملکت کے تجربے سے پاکستان کے حکمران طبقے کو بھی سبق حاصل کرنا چاہیے۔پاکستان آزاد ہوئے تقریباً ربع صدی گذر چکی مگر ہم ترقی نہیں کر سکے بلکہ زوال پذیر ہیں۔اس پستی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستانی حکمران طبقے کے ارکان عموماً ایک دوسرے سے کھنچے رہتے ہیں اور اتحاد ویک جہتی سے کام نہیں کرتے۔اسی لیے انتظام حکومت بھی عمدہ انداز میں نہیں ہو پاتا کہ ارکان کی توانائی تو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں صرف ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں بھی سیاست دانوں، ملٹری، بیوروکریسی اور عدلیہ کے مابین ہم آہنگی پیدا ہو جائے تو رفتہ رفتہ یہ وطن ان تمام علتوں، خرابیوں اور مسائل سے چھٹکارا پا سکتا ہے جو جنم لے چکے۔ اس ضمن میں انڈونیشیا کی سنہری مثال ہمارے سامنے ہے۔