سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں ڈیڈ لاک ختم کرایا اور یوں 8 فروری 2024ء کو الیکشن کرانے پر اتفاق ہو گیا۔ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن اصل چیلنج یہ ہے کہ پاکستان میں الیکشن کے نام پر سلیکشن نہ ہو بلکہ ایک فیئر اینڈ فری الیکشن کا انعقاد کرایا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا 8 فروری کا الیکشن فیئر اینڈ فری ہوگا؟
تاریخ بڑے کام کی چیز ہے۔ جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں ان کا جغرافیہ بدل جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال 1970ء کا الیکشن ہے۔ 7دسمبر 1970ء کو قومی اسمبلی کی 300نشستوں کے لئے الیکشن ہوا۔ عوامی لیگ نے 167 اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 86 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت نے اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے اس کیخلاف فوجی آپریشن کردیا اور یوں بھارت کو پاکستان کیخلاف سازش کرنے کا موقع مل گیا۔
عوامی لیگ کے نوجوانوں نے مکتی باہنی کے نام سے ایک عسکری تنظیم بنائی اور بھارتی فوج کے ساتھ مل کر ریاست کے خلاف جنگ شروع کردی جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے آیا۔ پاکستان کا جغرافیہ بدل گیا لیکن ہم نے تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی ٹھانے رکھی۔
اُنیس سو 77 کے الیکشن میں ایک دفعہ پھر دھاندلی کے خلاف شور مچا اور ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک چلا دی گئی۔ اس تحریک کا نتیجہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کی صورت میں نکلا۔ جنرل ضیاء نے مارشل لا نافذ کرنے کے آٹھ سال بعد 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کرائے۔جن کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیراعظم اور نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب بنے۔ 1988ء میں جنرل ضیاء الحق نے جونیجو کو برطرف کردیا کیونکہ وزیر اعظم نے صدر کے ایک مالی کی مدت ملازمت میں توسیع سے انکار کردیا تھا۔
جونیجو کو برطرف کرنے کے کچھ عرصہ بعد جنرل ضیاء ایک فضائی حادثے کا شکار ہوگئے جس کے بعد 1988ء کے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل نے پیپلز پارٹی کے مقابلے پر آئی جے آئی بنائی لیکن اسکے باوجود پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرلی۔
پنجاب میں آئی جے آئی کو اکثریت دلوائی گئی اور نواز شریف وزیر اعلیٰ بن گئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بمشکل دو سال بھی پورے نہ کئے تھے اور صدر غلام اسحاق خان نے 1990ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کو وزارت عظمیٰ سے برطرف کردیا۔
انیس سو نوے کے انتخابات میں ایک دفعہ پھر آئی ایس آئی نے دھاندلی کی جس کی تفصیل اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں بیان کی گئی ہے۔ پھر صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کو وزیر اعظم بنوایا اور تین سال بعد انہیں برطرف کردیا۔
انیس سو ترانوے کے انتخابات میں نواز شریف زیر عتاب تھے لہٰذا نتائج پیپلز پارٹی کے حق میں آئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم بن گئیں۔
1996ء میں انہیں دوسری مرتبہ برطرف کیا گیا اور 1997ء کے انتخابات میں نواز شریف کو پھر وزیر اعظم بنایا گیا۔ دو سال بعد جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو اقتدار سے باہر نکال دیا۔
نواز شریف جیل میں گئے اور محترمہ بینظیر بھٹو پہلے سے جلا وطن تھیں۔ 2000ء میں نواز شریف اس وقت کی حکومت سے ایک ڈیل کے ذریعہ سعودی عرب چلے گئے۔
دوہزار دو میں مسلم لیگ ن کو توڑ کر مسلم لیگ ق بنائی گئی اور انتخابات کرائے گئے۔ انتخابات میں مسلم لیگ ق کو جتوایا گیا اور میر ظفر اللّٰہ خان جمالی وزیراعظم بن گئے۔
انہیں 2004ء میں فارغ کرکے پہلے چودھری شجاعت حسین اور پھر شوکت عزیز کو وزیراعظم بنایا گیا۔
دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں مشرف نے مسلم لیگ ق کو ہروا دیا کیونکہ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا چاہتے تھے لیکن پیپلز پارٹی نے الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن کےساتھ مل کر مشرف کی چھٹی کرا دی۔
دوہزار تیرہ میں انتخابات ہوئے تو نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن گئے۔ عمران خان نے ان پر دھاندلی کا الزام لگایا اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیرالاسلام کی ملی بھگت سے نواز شریف کے خلاف دھرنا دیا۔ دھرنا تو کامیاب نہ ہوا لیکن عمران خان سپریم کورٹ کے ذریعہ نواز شریف کو نااہل کرانے میں کامیاب ہوگئے۔
دوہزار اٹھارہ کے انتخابات میں جنرل قمر جاویدباجوہ نے عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کے لئے سیاست میں کھلم کھلا مداخلت کی۔ جب عمران خان وزیر اعظم بن گئے تو کچھ عرصہ باجوہ کی بہت تعریفیں کرتے رہے لیکن پھر انہیں سازشی قرار دے دیا۔ جس طرح جنرل ضیاء اپنے ہی لائے گئے جونیجو کے ساتھ نہ چل سکے اسی طرح باجوہ بھی اپنے ہی لائے گئے عمران خان کے ساتھ نہ چل سکے۔
یہ کوئی راز نہیں رہا کہ عمران خان کے لئے 2024ء کا الیکشن لڑنا بہت مشکل ہے۔ ان کے ساتھ وہی ہوگا جو 2018ء میں نواز شریف کے ساتھ ہوا۔
آٹھ فروری 2024ء کو ایک اور دھاندلی زدہ الیکشن سے پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ اگلے الیکشن میں دھاندلی کا راستہ صرف سپریم کورٹ روک سکتی ہے۔