زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ جہاں زندگی سے وابستہ تمام گوشے مقبول ہوئے وہیں اردو شاعری میں بھی غیر معمولی تبدیلی رونما ہوئی، اس کے موضوع ، ہیئت ، اسلوب ، الفاظ وغیرہ یا تو وقت کے تقاضوں کے تحت بدل گئے، انہوں نے نئے معنی و مفاہیم کا لباس پہن لیا، بڑی شاعری کا یہ خاص وصف ہوتا ہے کہ وہ اپنا مفہوم زمانے کے مطابق ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
شاعر کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے خیالات و تجربات کی ترسیل کیلئے جو لفظیات وضع کر رہا ہے، ان میں عصری تقاضوں کو پورا کرنے کی قابلیت ہو، دور قدیم سے عصر حاضر تک کی شاعری کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر دور کی شاعری کی اپنی کچھ مخصوص لفظیات رہی ہیں جیسے کلاسیکی دور میں گل، بلبل، لالہ، سہود صیاد، سابق، رند ، قاصد ، محتسب، رقیب ، ناصح، قفس ، ستم گر ، جفاکار وغیرہ کو شعرا نے اپنے اپنے انداز میں برتا، شاعری کا ایک خاص وصف ابہام ہوتا ہے، جس میں بات براہ راست نہ کہہ کر بالواسطہ بیان ہوتی ہے، ابہام کیلئے علامت کو زیادہ مناسب سمجھا گیا، یہی سبب ہے کہ جدید شاعری میں علامت نگاری بے حد کار آمد ثابت ہوئی۔
جون ایلیا کا شمار جدید شعرا میں ہوتا ہے، اس نسبت سے ان کے یہاں بھی علامت کا رجحان ملتا ہے، لیکن وہ علامت کے بجائے براہ راست اظہار کو ترجیح دیتے ہیں جو ان کی شاعری کا نمایاں وصف ہے، انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے یہ بات ثابت کر دی کہ شاعری میں محض بڑے اور اعلیٰ مضامین ہی نہیں بلکہ عام اور سامنے کے مضامین میں شاعرانہ فن کاری کے ساتھ نظم ہوسکتے ہیں۔
ان کی شاعری کے مطالعے کے بعد یہ امر واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے کچھ خاص لفظیات کو بارہا اپنی شاعری میں برتا ہے، مثال کے طورپر شہر، گھر، گلی، کوچے، خاک، دشت، شام، شب، آسمان، رات، دن، چاند ، بستی ، زمین ، موج ، جنگل ، خون ، لہور، سرخ ، شاخ وغیرہ۔ ان کو جون ایلیا نے بلند تخیلات کے ذریعے شاعری میں استعمال کیا ہے، چند اشعار بطور مثال نقل کئے جاتے ہیں۔
شور اٹھا مگر تجھے لذت گوش تو ملی
خون بہا مگر ترے ہاتھ تو لال ہوگئے
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
کوئی نہیں یہاں خموش کوئی پکارتا نہیں
شہر میں ایک شور ہے اور کوئی صدا نہیں
تھی جو اک فاختہ اداس اداس
صبح وہ شاخ سے اتری ہی نہیں
کیا بتاؤں کہ زندگی کیا تھی
خواب تھی جاگنے کی حالت کا
زندگی کی دھوت میں مرجھا گیا میرا شباب
اب یہاں آئی تو کیا ، ابر بہار آیا تو کیا
مذکورہ بالا اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ جون ایلیا کی شاعری میں جہاں ترقی پسندی کا رنگ خواہ جزوی طور پر ہی سہی مگر موجود ہے وہیں جدیدیت کا بھی پورا اثر ہے، جس کی بدولت انہوں نے بعض الفاظ بہ طور علامت استعمال کئے ہیں، درج بالا پہلا شعر طنز آمیز ہے اور ترقی پسند شعراء کی طرح جون ایلیا نے لفظ خون کو برتا ہے، اس کے علاوہ گھر، شہر، فاختہ، شاخ، خواب، دھوپ، بہار، نیند، رات اور دن کو انہوں نے علامت بنا کر نظم کیا ہے، ان علائم کو جدید شعراء نے بھی بخوبی استعمال کیا ہے، جون ایلیا نے بھی قریب قریب ان ہم مفاہیم میں علامتوں کو استعمال کیا البتہ ضرور ہے کہ ان کا انداز بیان مختلف ہے، جس کی وضاحت ان اشعار کے تجزیئے سے ہو جاتی ہے۔
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
یہاں گھر کو ذات کی علامت بنایا گیا ہے، شاعر کی ذات ہر روز کسی نہ کسی حادثے سے دو چار ہوتی رہتی ہے، جس کے سبب اس کا دل شکستہ ہوتا ہے اور اسی لئے شاعر جھنجلاہٹ میں اپنی منشتر ذات کو اس کے حال پر چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
جون ایلیا نے گھر اوراس کے تلازمات مثلاً دیوار، دروازہ، کمرہ ، مکان ، آنگن ، دریچے وغیرہ کا استعمال بہت زیادہ کیا ہے، ان کے ذریعے انہوں نے ہجرت اور بے گھری کے کرب کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے، گھر کے علاوہ شہر اور شہر کے متعلقات کا استعمال بھی ان کی شاعری میں ہجرت اور یاد وطن سے منسوب نظر آتا ہے۔
کوئی نہیں یہاں نموش کوئی پکارتا نہیں
شہر میں ایک شور ہے اور کوئی صدا نہیں
شہر رونق اور گہما گہمی کی علامت ہے، یہاں بھی شہر اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے، یہ شعر شہر کے اس تاریک پہلو کو اجاگر کرتا ہے جہاں یوں تو بہت شورو فغان ہے مگر تمام انسان ایک دوسرے سے انجان ہیں، اب فاختہ علامتی مفہوم ملاحظہ ہو
تھی جو ایک فاختہ اداس اداس
صبح وہ شاخ سے اڑی ہی نہیں
فاختہ امن کی علامت ہے لیکن یہاں ان معصوم لوگوں سے مراد ہے جو سارا منظر دیکھ کر اداس رہتے ہیں، فاختہ کا اداس ہونا کسی بڑے سانحے کا پیش خیمہ ہے، جس کو فاختہ نے محسوس کر لیا ہے اور وہ اسی ڈر سے شاخ سے اڑنا نہیں چاہتی، یہ شعر تقسیم ہند کے بعد بڑے پیمانے پر ہجرت کی ترجمانی کرتا ہے، جون ایلیا نے زندگی کی حقیقت کو اس طرح علامتی اندازہ میں برتاہے۔
کیا بتاؤں کہ زندگی کیا تھی
خواب تھی، جاگنے کی حالت کا
جدید شعراء کے یہاں خواب نہ پوری ہونے والی خواہشات و تمناؤں کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جون ایلیا کے یہاں ابھی یہ علامت یہی مفہوم ادا کرتی ہے، لیکن اس شعر میں بیداری میں دیکھے گئے خواب کا ذکر ہوا ہے، خواب دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو انسان بند آنکھوں سے دیکھتا ہے اور دوسرا وہ جو انسان کو سونے ہی نہیں دیتا، یہ خواب انسان کی وہ آرزوئیں ہوتی ہیں جن کو پورا کرنا اس کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔
شاعر نے یہاں زندگی کو جاگنے کے خواب سے تنبیہہ دی ہے جو کہ ایک نیا تجربہ اور ایک نئی فکر ہے، جاگنے کی حالت کا خوب انسان کو مسلسل بے چین کئے رہتا ہے اور اسی طرح انسان کی زندگی ہر لمحہ اضطراب کی کیفیت میں بسر ہوتی ہے، شاعر نے اس شعر میں زندگی کی حقیقت کو بڑی خوبصورتی سے نظم کیا ہے، زندگی کے مسائل کو بھی جون ایلیا نے علامتی مفہوم میں بیان کیا ہے۔
زندگی کی دھوپ میں مرجھا گیا میرا شباب
اب بہار آئی تو کیا، ابر بہار آیا تو کیا
دھوپ آلام و مصائب کی علامت ہے اور بہار خوش حالی کی، شاعر زندگی کی سختیوں و مصیبتوں میں اس طرح غرق ہے کہ زندگی کی تمام تر رنگینیوں سے محروم ہوگیا ہے اور اب اس کو کسی طرح کی کوئی توقع نہیں رہی، دھوپ اور بہار کو اس مفہوم میں جدید شعراء نے بہ طورعلامت استعمال کیا ہے، اسی طرح جون ایلیا نے نیند ، رات اور دن کو اس شعر میں برتا ہے۔
لٹا دے نیند کے بستر پہ اے رات
میں دن بھر اپنی پلکوں پہ رہا ہوں
جدید شاعری میں رات دردو الم کی علامت ہے تو دن خوشی و نشاط کی اور نیند سکون و آرام کا مفہوم ادا کرتی ہے، اس شعر میں بھی یہ تینوں الفاظ تقریباً اسی مفہوم میں ادا ہوئے ہیں، جون ایلیا کی شاعری میں علامتی نظام کے جائزے کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے جدید شاعری میں رائج لفظیات کو ہی اپنی شاعری میں برتا ہے اور جدید شعراء کی طرح ہی ان لفظیات کو بہ طور علامت نظم کیا ہے۔
ان علامتوں میں کوئی نیا پن محسوس نہیں ہوتا البتہ اتنا ضرور ہے کہ ان علامتوں میں ان کا انداز بیان نمایاں ہے، جو الفاظ عموماً غزل میں استعمال نہیں ہوتے ہیں یعنی جو تغزل کے لئے نامناسب ہیں ان الفاظ کو بھی جون ایلیا نے اپنی غزلوں میں علامت بنا کر پیش کیا ہے، مثلا مشین ، کبوتر ، کوا وغیرہ کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ نظم کیا ہے۔
ہار آئی ہے کوئی آس مشین
شام سے ہے بہت ادا مشین
جون ایلیا کا تعارف
منفرد اسلوب کے حامل شاعر، ادیب اور دانشور جون ایلیا اپنے منفرد انداز تحریر کی وجہ سے جانے جاتے تھے، وہ دسمبر 1931ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے، ان کا پیدائشی نام سید سبط اصغر نقوی تھا، ان کے والد سید شفیق حسن ایلیا اک تنگ دست شاعر اور عالم تھے، پاکستان کے نامور صحافی رئیس امروہوی اور مشہور ماہر نفسیات محمد تقی ان کے بھائی تھے، جبکہ فلمساز کمال امروہی ان کے چچا زاد بھائی تھے۔
جون کی ابتدائی تعلیم امروہہ کے مدارس میں ہوئی جہاں انھوں نے اردو عربی اور فارسی سیکھی، درسی کتابوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور امتحان میں فیل بھی ہو جاتے تھے، بڑے ہونے کے بعد ان کو فلسفہ اور ہیئت سے دلچسپی پیدا ہوئی، انھوں نے اردو، فارسی اور فلسفہ میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں، وہ انگریزی، پہلوی وعبرانی، سنسکرت اور فرانسیسی زبانیں بھی جانتے تھے، نوجوانی میں وہ کمیونزم کی طرف راغب ہوئے، تقسیم کے بعد ان کے بڑے بھائی پاکستان آ گئے، والدین کے انتقال کے بعد جون ایلیا بھی 1956ء میں پاکستان آ گئے۔
1970 میں ان کی شادی مشہور جرنلسٹ اور افسانہ نگار زاہدہ حنا سے ہوئی، لیکن دونوں کے مزاجوں میں فرق تھا اور دونوں میں سے ایک بھی خود کو بدلنے کیلئے تیار نہیں تھا، تین بچوں کی پیدائش کے بعد دونوں کی طلاق ہوگئی، 1990ء میں تقریباً 60 سال کی عمر میں لوگوں کے اصرار پر انھوں نے اپنا پہلا مجموعہ کلام ’’شاید‘‘ شائع کرایا، اس کے بعد ان کے کئی مجموعے ’’گویا‘‘، ’’ لیکن‘‘، ’’ یعنی‘‘اور’’گمان‘‘ شائع ہوئے،انھوں نے مجموعی طور پر 35 کتابیں مرتب کیں، وہ اردو ترقی بورڈ (پاکستان) سے بھی وابستہ رہے، جہاں انھوں نے اک عظیم اردو لغت کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا، نومبر 2002ء کو کراچی میں فوت ہوئے۔