دوستی اُور سلامتی کے تقاضے

پاکستان کے لئے پہلی ترجیح قومی سلامتی ہے جسے ممکن بنانے کے لئے انتہاپسند گروپوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ روکنے کے لیے بھرپور مہم چلائی جانی چاہئے۔ اگر پاکستان ایسے ریاست مخالف گروہوں کو کمزور کردیتا ہے‘ تو اس سے درپیش بیرونی خطرات میں بھی کمی آئے گی بالخصوص افغانستان سے ہمیں معاشی فوائد حاصل نہیں ہو رہے۔ فی الحال پاکستان کا واحد حقیقت پسندانہ مقصد افغانستان کے ساتھ قابل عمل اُور مرتکز نوعیت کا ورکنگ ریلیشن ہونا چاہئے جس میں انتہائی اقدامات سے گریز کیا جائے لیکن یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہمیشہ سے تعلقات مشکل رہے ہیں اُور یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اِن تعلقات کو دونوں ممالک نے غلط انداز سے سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔ دونوں نے ہی دوسرے سے اس بات کی توقع کی ہے اس کی پالیسیوں کی ناکامی کی تلافی کرے۔ یہاں مسائل کے ایسے حل تلاش کئے گئے جو اصل مسئلے سے بھی زیادہ بدتر ثابت ہوئے۔ پھر یہاں ایک دوسرے کے دشمنوں سے بھی دوستی کی گئی۔ پاکستان کو ان تعلقات کے حوالے سے ایک ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے جو پاکستان اُور افغانستان کی سلامتی‘ اقتصادی مستقبل اور سیاسی استحکام کے لئے اہم ہوں۔


پاکستان اور افغانستان مشترکہ لیکن متنازع تاریخ رکھتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے ملتی جلتی شناختیں‘ متنازع سرحد اور منقسم قبائل کا مجموعہ ہیں۔ یہ عناصر اِن دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ یہ دونوں ممالک بیرونی طاقتوں پر بھی منحصر رہے ہیں اُور انہی مفادات کی وجہ سے جنگوں کا شکار بھی بنے ہیں۔ یہ سب وہ عوامل ہیں جنہوں ان دونوں ممالک پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ یہ بات پاکستانیوں کو سوچ میں مبتلا کردیتی ہے کہ انہوں نے افغانوں کے لئے جو کچھ کیا اس کے لئے افغان اُن کے شکر گزار نہیں ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ افغانستان سوویت قبضے سے آزاد ہوا‘ اُور اس کے بعد‘ ایک سابق وزیر اعظم کے مطابق‘ اس نے ’غلامی کی زنجیروں‘ کو توڑ دیا ان زنجیروں نے افغانستان کو ایک اور سپر پاور کے ساتھ باندھا ہوا تھا۔ افغانوں کے ’آزاد‘ ہونے میں پاکستان نے ایک بار نہیں بلکہ دو مرتبہ ان کی مدد کی لیکن افغانوں کو اس سے کیا ملا؟ قوم پرستی‘ مذہبی انتہا پسندی‘ امریکہ دشمنی اور سیاسی موقع پرستی کی عینک سے دیکھنے کے علاؤہ طالبان کو کوئی آزادی دہندہ نہیں کہہ سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کے دور حکومت میں افغانوں کو قیدیوں جیسی پابندیوں کا سامنا ہے۔ صرف خواتین کے ساتھ سلوک کو دیکھا جائے تو وہ انسانیت کے خلاف جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ پاکستانیوں کے ایک طبقے کے خیال کے برعکس‘ افغان طالبان کی لڑائی افغانوں کے لئے نہیں تھی بلکہ ان کے اپنے اقتدار اور نظریے کے لئے تھی جو افغانوں کے درمیان نہیں بلکہ افغانوں اور طالبان کے درمیان اختلاف سے پیدا ہوا تھا۔ یہ سچ ہے کہ طالبان دیہی علاقوں کے غریب طبقے میں اپنے حامی رکھتے تھے‘ خاص طور پر پختون علاقوں میں ان کے حامی موجود تھے بالکل ویسے ہی جیسے کہ انتہا پسند مذہبی عناصر پاکستان کے کم آمدنی والے گروہوں میں اپنی مقبولیت رکھتے ہیں لیکن کیا جمہوریت اور ترقی کی خواہش رکھنے والی ہماری پڑھی لکھی آبادی ان عناصر کا اقتدار میں آنا پسند کرے گی؟ اسی طرح افغانستان کے پڑھے لکھے عوام طالبان کی حمایت کیوں کریں گے؟ کیا وہ اسی چیز کے حقدار ہیں؟ زیادہ تر افغانوں کے لئے یہ بات اہم رہی کہ طالبان کی واپسی سے پہلے کے بیس سالوں میں‘ تعلیم اور صحت کی سہولیات میں بہتری آئی‘ خواتین کے حقوق بشمول کام کے مواقع میں اضافہ ہوا اور شہریوں کو سیاسی آزادی کا تجربہ ہوا۔ موجودہ حالات میں طالبان افغانستان کو کنٹرول کرنے کے قابل تو ہوسکتے ہیں لیکن افغانستان پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتے اور وہاں استحکام لانا تو بہت دور کی بات ہے۔ افغانستان کی فالٹ لائنز‘ مسابقتی جغرافیائی اور علاقائی سیاست اور اس کے تنازعات کا شکار اندرونی حالات کے پیش نظر افغانوں اور عالمی برادری کی کوششوں کے بغیر افغانستان مستحکم نہیں ہوسکتا۔ تو اِس صورتحال میں کیا کچھ کیا جاسکتا ہے؟ پاکستان افغانستان میں استحکام نہیں لا سکتا۔ یہ کام صرف افغان ہی کرسکتے ہیں لیکن پاکستان کو وہاں عدم استحکام سے بچنے کے لئے خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔