آرتھر جیمز بالفور نے سازش کر کے بالفور اعلان کیا تھا یہ بالفور معاہدہ یہودیوں کے نمائندے حاییم وائز مین اور ناہوم سوکولو جو کہ لندن میں تھے کے درمیان 2 نومبر 1917 میں کرایا جس میں اس معاہدے پر دستخط ہوئے کہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کی جائے گی۔ یہ انعام یہویوں کی اس خدمت کے صلے میں تھا کہ یہودی عربوں کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف تاج برطانیہ کا ساتھ دینے پر راضی کریں۔
ہوس اقتدار میں مبتلا اس وقت کے عربوں کے اندر عرب تعصّب پیدا کرنے میں یہودی کامیاب ہوگئے
دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین کی سرزمین پر یہودی آباد کاری میں تیزی آگئی اور اس کے بعد اسرائیلی ریاست کا اعلان کرکے سب سے پہلے اس ناجائز ریاست کو برطانیہ نے خود تسلیم کیا اس کے بعد امریکا نے خود بھی تسلیم کیا اور اس کو مجلس اقوام عالم سے بھی دباؤ ڈال کر تسلیم کروا لیا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے گھر کسی اور کا ہو اور گھر کے مالک کی مرضی کے بغیر کوئی محلّے کا غنڈہ گھر کا سودا اپنے جیسے کسی دوسرے لفنگے سے کردے اور پھر جس لفنگے کو اس غنڈے نے گھر بیچا اس کا حق ملکیت سب سے پہلے خود تسلیم کرے اور زور زبر دستی کے ذریعے اوروں سے بھی یہ تسلیم کرائے۔ اس طرح سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر تو گیا اور عرب دنیا میں چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں قائم تو ہوگئیں مگر ایک رستہ ہوا ناسور عرب دنیا کے سینے میں نمودار ہوگیا۔ جس سے خون اور پیپ ستر سال سے رس رہا ہے اور اس کی ٹیسیں ساری دنیا کے مسلمان محسوس کررہے ہیں۔ عالمی دہشت گرد امریکا اور برطانیہ بنیادی طور پر اسرائیل کے حمایت میں ہر طرح کا فوجی اور مالی تعاون پیش کررہے ہیں اور ان کے چند یورپی ممالک مثلاً جرمنی، فرانس اور کنیڈا کھل اسرائیلی جارحیت کو جائز قرار دے رہے ہیں اور حماس کو دہشت گر قرار دے رہے ہیں مگر ماتم تمام مسلمان ممالک کے سربراہان کا ہے جو کہ تیس دن گزر جانے کے بعد صرف مذمتی قرار دادیں منظور کررہے ہیں بیانات دے رہے ہیں۔ جبکہ جنگ کی زبان یہ بتارہی ہے کہ یہ جنگ اسرائیل ہر فلسطینی کیخلاف بھی اور امت مسلمہ کے خلاف بھی لڑرہا ہے۔
خود اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ بات درج ہے کہ اگر کوئی ملک یا قوم کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرے گا تو فریق ثانی اپنے ملک اور زمین کو غاصب ملک یا قوم سے چھڑانے یا آزاد کرانے کے لیے مسلح جدوجہد کا حق رکھتا ہے۔ یہ جدوجہد بین الااقوامی قوانین کے دائرے میں سمجھی جائے گی اور اس کی حمایت کرنا اقوام متحدہ کی اخلاقی اور قانونی ذمے داری قرار پائے گی۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو فلسطین سمیت ایسے تمام علاقے جو کسی نے بھی غصب کیے ہیں اور اگر وہاں کے لوگ اپنی آزادی کی جنگ جس طرح بھی لڑرہے ہیں وہ جنگ قانونی اور آئینی ہے۔ آج تمام اسلامی دنیا میں قبرستان کی سی خاموشی چھائی ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف نہ صرف زبانی بلکہ عملی قدم بھی اٹھایا جائے تو ایسا ہی ہوگا جیسا امریکا نے مشرقی تیمور کے لیے کیا تھا اگر مشرقی تیمور میں اٹھایا گیا قدم قانونی اور آئینی تھا تو فلسطین اور کشمیر میں یہ قدم اٹھاتے ہوئے اقوام متحدہ کو کیوں ہچکچاہٹ محسوس ہورہی ہے۔ مگر مسئلہ اپنے اپنے مفادات کا ہے جو کہ امریکا اور یورپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔
پوری دنیا کے مسلم حکمران بالعموم اور پاکستان کا حکمران ٹولہ بالخصوص اپنے انہی ذاتی مفادات کا اسیر ہے۔ سات ستمبر 2023 دنیا کے لیے ایک تاریخی دن ہے۔ ایک طرف تو یہ دن عالمی انسانی حقوق کے چمپئن اور اپنے آپ کو تہذیب یافتہ کہلانے والی عالمی طاقت امریکا اور یورپ کے چہرے سے نقاب الٹنے کا دن ہے دوسری طرف مسلم دنیا کے نام نہاد مسلمان حکمران جوکہ سات ستمبر سے پہلے تک اپنے آپ کو کسی پردے میں رکھ کر اپنے مفادات حاصل کرتے تھے ان کے بھی مکروہ چہروں کے عیاں ہونے کا دن ہے۔ حماس کی تیس دن کی اسرائیلی جارحیت کے جواب میں مزاحمت اور سر اٹھاکر جینے نے آج پھر ٹیپو سلطان شہید کے اس قول کو زندہ کردیا جب ہر طرف یہ رسم چلی ہے کہ بس اپنے اپنے مفادات حاصل کرو چاہیے اس کے لیے عالمی طاقتوں کے جوتے چاٹنے پڑیں۔ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ غزہ کا بچہ بچہ بھی آج بیدار ہے اور وہ بھی اسرائیل کی جارحیت کے مقابلے میں وہ بھی شیروں والی ایک دن کی زندگی کو گیدڑ کی سوسالہ زندگی پر ترجیح دے رہا ہے۔ بارود اور آہن کی برسات میں اہل غزہ اپنی صبح و شام کررہے ہیں مگر ان کا عزم جواں ہے ان کے چہروں پر نور ہے وہ کسی خو ف میں مبتلا نہیں وہ پورے فلسطین سے اسرائیل کو نکالنے اور قبلہ اوّل کی آزادی تک اپنی مزاحمت جاری رکھنے کا بار بار اعلان کررہے ہیں جب کہ دوسر ی طرف یہودیوں کے چہروں پر پژمردگی چھائی ہے نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے روز کا معمول ہیں۔
ستر سال سے یہودی ناجائز ریاست کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو یہ تیس دن میں کیا سرنگوں کرسکیں گے ان کو معلوم ہے کہ مزاحمت میں زندگی ہے۔
ہری شاخ تمنّا ابھی جلی تو نہیں
دبی ہے آگ جگر مگر بجھی تو نہیں
جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی
کٹی ہے برسر میداں مگر کٹی تو نہیں