نظریاتی اساس : اجتماعی سوچ

ملک پون صدی سے ’’نازک دوراہے اور خطرناک چوراہے‘‘ پر کھڑا ہے۔ قوم کی کوئی نظریاتی اساس ہے نہ مرکزی اجتماعی سوچ! پاکستان کے بانی اور پہلے سربراہ کو اتنا وقت ہی نہیں ملا کہ وہ آئینی جمہوری سیاسی اور ریاستی بنیادوں کو ضرورت کے مطابق مضبوط ومستحکم کرسکتے۔ اور تو اور اس عرصے میں ملک کی سب سے اہم ضرورت یعنی آئین بھی نہ بن سکا۔ دوسرے حکمران لیاقت علی خان کا دور بھی بے آئین ہی گزر گیا۔ پاکستان کی یہ دو شخصیات ایسی تھیں کہ ان پر قوم کا بھرپور اعتماد تھا۔ آئین کے بغیر ملک کا جو حال ہونا تھا وہ ہوا اور آج تک قوم اس کو بھگت رہی ہے۔ بے آئین ملک کی نیّا یا زمام کار جب اناڑی اور کوتاہ قامت حکمرانوں کے ہاتھ آئی تو ملک کا اقتدار طالع آزمائوں کے ہاتھوں کھلونا بن گیا۔ جمہوریت کے نام پر تماشے شروع ہوگئے۔ لیاقت علی خان کے بعد سیاسی عدم استحکام کا یہ حال ہوا کہ کوئی وزیر اعظم ایک آدھ سال تو کوئی چند ماہ کا مہمان رہا۔ اس تماشا صورت حال نے جرنیلوں کو قسمت آزمائی کا موقع فراہم کیا۔ تقریبا گیارہ سالہ بدترین سیاسی، انتظامی اور مالی حالات کی خرابی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ایوب خان نے اپنے آپ کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا۔ اس دور کے سیاست دانوں کی عاقبت نااندیشیوں سے تنگ آئے لوگوں نے سکون کاسانس لیا۔

فوجی اقدام یقینی طور پر ملک کے لیے کسی طور سود مند نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن 1958 سے پہلے سیاست دانوں کی دھینگا مشتی اور غیر جمہوری رویوں نے جو حالات پیدا کر دیے تھے اس کا لازمی نتیجہ اسی طرح کا نکلنا تھا۔ اقتدار فوج کا علاقہ ہے نہ اس کا کوئی جواز! فوج کا اقتدار نہ فوج کے حق میں بہتر ہے اورنہ ملک و قوم کے لیے۔ کوئی بھی ہوش مند انسان فوج کے اقتدار کی حمایت نہیں کرسکتا۔ بدقسمتی سے ملک کی پچھتر سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ فوجی آمروں کو اقتدار میں آنے کا موقع ہمیشہ غیر فوجی نام نہاد جمہوری سیاست دانوں نے اپنے غیر جمہوری رویوں سے مہیا کیا۔ ایوب خان ایک فوجی تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے پہلے اور اس کے بعد کے ’’جمہوری‘‘ ادوار صنعتی ترقی اور قومی اداروں کی کارکردگی کے لحاظ سے بہتر تھے۔ ایوب خان کے بعد اس کے تربیت یافتہ پہلے ’’جزوی‘‘ منتخب جمہوری حکمران بھٹو نے پہلے اکثریتی رہنما شیخ مجیب کے مینڈیٹ کو ٹھکانے لگا کر ملک کو دولخت اور جمہوریت کو رسوا کیا۔ پھر صنعتوں کو قومی تحویل میں لے کر معیشت وصنعت پر کاری ضرب لگائی، پی آئی اے اور اس جیسے متعدد بہترین قومی اداروں میں سیاسی فوائد کی خاطر نااہل لوگوں کو بھرتی کرکے ان اداروں کی ایسی کمر توڑی کہ آج چالیس سال بعد بھی یہ ادارے دوبارہ کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہے۔ بھٹو مغربی پاکستان کے چار میں سے دو صوبوں میں اکثریت حاصل کرنے والا جمہوری حکمران تھا۔ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے نتیجے میں ملک کے اقتدار کا حقدار ٹھیرا۔ اس کے چار سالہ دور میں سیاسی مخالفین کے ساتھ جو سلوک ہوا اس نے بھٹو صاحب کے آمرانہ مزاج کا پتا دیا۔ ایک منتخب جمہوری حکمران نے معیشت وصنعت کی تباہی کے ساتھ ساتھ قانون، شرافت، اخلاقی وسیاسی اقدار کی بھی طرح دھجیاں اڑائیں۔

جمہوریت کے معاملے میں بھی جمہوری بھٹو کا کردار فوجی آمر سے بہتر نہیں بدتر ثابت ہوا۔ انتظامیہ کے ذریعے مخالف امیدواروں کو اغوا کروا کے بلامقابلہ منتخب ہونے کے شوق نے بھٹو مرحوم کی جمہوریت پسندی کو بے نقاب کردیا۔ لوگ بھٹو کے فاشسٹ آمرانہ اقدامات سے عاجز آکر کسی نجات دہندہ کے آنے کی دعائیں کرنے لگی۔ فوج نے بھٹو کے پیدا کردہ آمرانہ ماحول سے ایک بار پھر فائدہ اٹھایا۔ بھٹو کے آمرانہ جبر سے جب فوج نے جان چڑھائی تو لوگوں نے فوری طورپر سکون کا سانس لیا اورکچھ خوشی کا اظہار کیا۔ یہ الگ بات کہ فوجی آمر ضیاء نے اپنے گیارہ سالہ دور میں قوم اور ملک پر بہت سارے نئے عذاب مسلط کیے۔ جنرل ضیاء کی اکیڈمی میں تربیت پانے والا نواز شریف اور اس کا ٹبر اقربا پروری اور آمرانہ سوچ کا حامل ثابت ہوا۔ آزاد جمہوری ماحول کو پروان چڑھانے کے بجائے شخصی اور خاندانی آمریت کو پروان چڑھایا۔ شریف خاندان نے مسلم لیگ کو وراثتی سیاسی جاگیر بنا دیا۔ نون لیگ کے نام سے قائم کی گئی سیاسی تنظیم جمہوریت کے نام پر خاندانی آمریت کا ایسا دھبا ہے جو الیکشن جیتنے کے لیے جو حربے استعمال کرتی رہی ہے اس سے آزاد جمہوری ماحول پیدا ہونے میں کوئی مدد نہ ملی اور وہ ہتھکنڈے کسی سے ڈھکے چھپے بھی نہیں۔ دوسری طرف بھٹو کے ’’گھس بیٹھیے وارثوں‘‘ کی پی پی کا معاملہ تو بہت ہی انوکھا ہے۔ سندھ کے اقتدار کے ایوانوں میں براجمان یہ پارٹی تمام سیاسی اخلاقی سماجی قانونی اقدار کا جنازہ نکال چکی ہے۔ انتخابات کے نام پر سندھ میں ہونے والے ڈرامے میں پی پی کس طرح جیتتی ہے اس کی ایک جھلک سندھ بھر کے اور خاص طور پر کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات ہیں۔ غیرمنصفانہ حلقہ بندیاں، پسند کے الیکشن عملے کی مدد، دھونس، دھاندلی، ووٹوں کی چوری، منتخب نمائندوں کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے اغوا اور لالچ اور ہر حربے کا بے شرمانہ استعمال پی پی کی جمہوریت کا قبیح حسن ہے۔

نام نہاد سیاست دانوں کے ایسے حالات اور آمرانہ کردار کو دیکھتے ہوئے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر فوج کا ڈر نہ ہوا تو کیا پی پی اگر ایک بار ملک پر قابض ہوگئی تو کراچی سمیت سندھ کے تجربے سے پورے ملک میں فائدہ نہیں اٹھائے گی۔ کیا پی پی سندھ کے تجربے کو دہراتے ہوئے پاکستان بھر کو مصر اور بنگلا دیش جیسی ’’جمہوریہ‘‘ نہیں بنادے گی کہ جہاں صفر بلکہ منفی کارکردگی پر بھاری اکثریت مل جاتی ہے۔ سیاستدانوں کے اخلاقی و سیاسی دیوالیے پن کو ختم کیے بغیر فوجی آمروں کی ہوس اقتدار کی راہیں مسدود ہونے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ فوجی آمر کم از کم بلدیاتی انتخابات تو صاف شفاف کروا دیتے ہیں۔ سیاسی حکمران اول تو بلدیاتی انتخابات ہونے نہیں دیتے اگر کروانے پڑ ہی جائیں تو دھاندلی سے اتنے آلود ہوتے ہیں کہ ان کی بدبو سے چاروں طرف سخت سڑاند پھیل جاتی ہے۔ ہمارے ملک کی درجنوں سیاسی پارٹیوں میں سے (سوائے جماعت اسلامی کے) کس پارٹی کو جمہوری پارٹی کہا جاسکتا ہے۔ یہ سب جرنیلوں کے زیرسایہ موروثی سیاسی لمیٹڈ کمپنیاں ہیں۔ ہمارے کس سیاسی رہنما کا مزاج جمہوری ہے۔ نواز شریف، زرداری، عمران خان یا فضل الرحمان؟؟ ان میں سے کون پارٹی کے اندر انتخابات کے نتیجے میں پارٹی سربراہ بنا ہے؟؟ جب حال یہ ہے کہ نہ کوئی سیاسی پارٹی جمہوری ہے اور نہ کوئی لیڈر تو پھر ملک میں ان کے زیر انتظام انتخابات کا آزادانہ منصفانہ ہونا کیسے ممکن ہے۔ الیکشن کمیشن بھی تو انہی آمر مزاج سیاستدانوں نے بنانا ہے۔ ان کے بنائے ہوئے الیکشن کمیشن اور مقرر کردہ عملے سے وہی توقع رکھیں جس کی جھلک کراچی کے حالیہ بدترین دھاندلی زدہ بلدیاتی انتخابات میں نظر آئی ہے۔

تصور کیجیے کہ فوج نے سیاسی مداخلت سے توبہ کرلی ہے (بظاہر ناممکن)۔ اقتدار زرداری کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ کیا کبھی منصفانہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کوئی امکان باقی رہے گا۔