یورپ کا چہرہ دن بدن ڈرامائی طورپرتبدیل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ دہشتگردی کے خطرات اور بے قابو امیگریشن یورپی یونین کے رکن ممالک کے درمیان پاسپورٹ سے پاک سفر کا معیار تباہ کر رہے ہیں۔ حکومتوں کی جانب سے اپنی خودمختاری کو بحال کرنے اور شہریوں کے تحفظ کے لیے قومی سلامتی کو مضبوط بنانے کے لیے پورے بلاک میں سرحدی چیکنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق شینگن کے علاقے میں فرانس سے سلوواکیا، سویڈن سے جرمنی تک 11 ممالک نے شناخت کی جانچ پڑتال، پاسپورٹ چیک، پولیس انٹرویوز، جامد چیک پوائنٹس اور گاڑیوں کے معائنے سمیت طویل عرصے سے ترک کی گئی سرحدی پابندیوں کو دوبارہ نافذ کیا ہے۔ بہت سے ممالک کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ سے تارکین وطن کے طور پر ’دراندازی‘ روکنے کے لیے سرحدوں پر چیکنگ ضروری ہے۔
اٹلی نے رواں ماہ ہمسایہ ملک سلووینیا کے ساتھ سرحدی چیکنگ میں اضافہ کرتے ہوئے اسرائیل حماس جنگ کو ’یورپی یونین کے اندر تشدد کے بڑھتے ہوئے خطرے‘ اور ’زمین اور سمندر سے مسلسل تارکین وطن کے دباؤ‘ کے درمیان دہشت گرد تارکین وطن کی آمد کے خطرے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔دوسری جانب سلووینیا نے ہنگری اور کروشیا کے ساتھ اپنی سرحدوں پر چیکنگ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے اٹلی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
فرانس، جرمنی، بیلجیئم، نیدرلینڈز اور لکسمبرگ کے درمیان مسافروں کی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دینے کے لیے تقریبا 40 سال قبل متعارف کرائے گئے شینگن معاہدے کے تناظر میں سرحدی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
شینگن قوانین کے مطابق رکن ممالک کے درمیان بغیر شناختی جانچ پڑتال کے کسی بھی فرد کو پاسپورٹ کے بغیر سفر کی اجازت ہے۔
گزشتہ برس 10 لاکھ پناہ گزینوں اور غیر قانونی تارکین وطن میں سے ایک تہائی کامیابی کے ساتھ یورپی یونین میں داخل ہوئے اور شینگن قوانین کے تحت وہ بلاک کے اندر جہاں چاہیں سفرکرسکتے تھے۔
یورپی یونین کے ممالک کی جانب سے سرحدی کریک ڈاؤن کو بلاک میں رہنے والے 400 ملین یورپی باشندوں کے سفری حقوق کو محدود کرنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
یورپی نیوز ویب سائٹ یورو ایکٹو کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’آسٹریا سے جرمنی جانے والی ٹرین کو لے کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شینگن کا کبھی وجود ہی نہیں تھا۔ سرحد پار کرنے پر سفررک جاتا ہے۔ تمام دروازے بند ہیں‘۔
جنوبی فرانس کے شہر بنیولس سر میر میں پوسٹر آویزاں کیے گئے ہیں جن میں اسپین کے ساتھ قریبی سرحد پر چار سڑکوں کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پیرس حکومت کا کہنا ہے کہ یورپی یونین میں غیر قانونی طور پر تارکین وطن کو شمال کی جانب لانے والے انسانی اسمگلروں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے پرانہیں ’انسداد دہشتگردی‘ اقدام کے طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
برسلز میں قائم سینٹر فار یورپین پالیسی اسٹڈیز میں تارکین وطن کے ماہر البرٹو ہورسٹ نیڈ ہارٹ نے رواں ماہ کے اوائل میں خبردار کیا تھا کہ سرحدوں کو سخت کرنا ’شینگن زون کی کمزوری‘ ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شینگن کی بدولت جنوبی یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کی ’بڑی تعداد‘ براعظم میں آزادانہ طور پرجرمنی جیسے ممالک کا رخ کرتی ہے، جہاں گزشتہ سال پناہ کی درخواستوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا اور یہ تعداد چوتھائی ملین تک پہنچ گئی۔
جرمنی کے حکمراں اتحاد جس میں مہاجرین کی حمایت کرنے والے گرینز بھی شامل ہیں، نے پولیس کے اعداد و شمار پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ صرف ستمبر میں 20 ہزار غیر قانونی تارکین وطن ملک میں داخل ہوئے۔
جرمن حکام نے پیش گوئی کی ہے کہ اس سال غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد 2016 کے بعد سب سے زیادہ ہوگی، جب اس وقت کی چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے ملک میں خانہ جنگی سے فرار ہونے والے شامیوں کا خیرمقدم کیا تھا۔
جرمن چانسلر اولاف شولز نے کہا ہے کہ ’ہمیں بڑے پیمانے پر ان لوگوں کو ملک بدر کرنا ہوگا جنہیں جرمنی میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہمیں بے قاعدہ نقل مکانی کو نمایاں طور پر محدود کرنا ہوگا۔ انہیں ہمارا ملک چھوڑ دینا چاہیے‘۔
فرانس میں (جس نے یورپی یونین کی تمام داخلی سرحدوں پر دوبارہ چیکنگ شروع کردی ہے) وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارمینن نے کہا کہ فرانسیسی شہری ’غیر مستحکم زمینوں سے گھرے ہوئے یورپ میں فیصلے تلاش کر رہے ہیں۔’امیگریشن کو کنٹرول کرنے کی بات کرنا ہماری خودمختاری کی بات کرنا ہے۔
جرمنی کے ساتھ زمینی اور سمندری سرحدوں کی نگرانی کرنے والے ڈنمارک کا کہنا ہے ک دہشت گردوں، منظم جرائم اور غیر قانونی تارکین وطن سے داخلی سلامتی کو ’اہم خطرے‘ کا سامنا ہے۔
سویڈن نے خبردار کیا ہے کہ وہ دہشتگردی اور اس سے قومی سلامتی کو لاحق سنگین خطرے کی وجہ سے یورپی یونین کی تمام سرحدوں کی جانچ پڑتال کررہا ہے۔
اٹلی کے وزیر اعظم جارجیا میلونی نے کہا کہ ہم نے فوری طور پر مداخلت کرتے ہوئے شینگن کو معطل کر دیا ہے اور سلووینیا کے ساتھ سرحدی کنٹرول بحال کر دیا ہے۔ انہوں نے کیا کہ یورپ کی حفاظت کے لیے پورے شینگن منصوبے کو ’تباہ‘ کیا جا سکتا ہے۔
سلوواکیا میں حکومت نے سیکڑوں پولیس افسران، فوجیوں اور کتوں کو ہنگری کے ساتھ اپنی سرحد پر بھیجا، جس کا مقصد بظاہر غیر قانونی تارکین وطن کو ملک میں داخل ہونے سے روکنا تھا۔
وزیر اعظم رابرٹ فیکو نے اس اقدام کے بارے میں کہا کہ، ’طاقت کے اس مظاہرے کا مقصد انسانی اسمگلروں اور غیر قانونی نقل مکانی کے منتظمین پر واضح کرنا ہے کہ سلوواکیا اپنے علاقے کی حفاظت کے لیے تیار ہے۔
جرمن ریاست سیکسنی میں بھی مسلح پولیس افسران نے گزشتہ ہفتے پولینڈ سے جانے والی موٹر وے پر گاڑیوں کو روک کر غیر قانونی تارکین وطن اور انسانی اسمگلروں کی جانچ پڑتال کی۔
تارکین وطن کے سخت مخالف ہنگری نے سخت سرحدوں کو یورپی یونین میں غیر قانونی بڑے پیمانے پر امیگریشن روکنے میں ناکامی کا مورد الزام ٹھہرایا ہے، ایک ایسی پالیسی جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ اس سے انفرادی ممالک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔
وزیر خارجہ پیٹر زیجرٹو نے واضح کیا: ’اگر برسلز نے اپنی پالیسی کو تبدیل نہیں کیا تو ہم اپنے آپ کو وہاں پا سکتے ہیں جہاں ہم نہیں ہونا چاہتے ہیں۔
یورپی یونین کے شینگن بارڈرز کوڈ میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ملک کی سلامتی کو لاحق سنگین خطرے کے پیش نظر کنٹرول اور چیکنگ ایک ’آخری حربہ‘ ہونا چاہیے۔