چین کی ترقی : ظاہری راز

چین اپنی محنت، جدوجہد اور قیادت کی مخلصانہ کوششوں اور اپنے عوام کی یکجہتی اور عظیم حب الوطنی کی بدولت اس مقام پر ہے کہ دنیا کا کوئی ملک، کوئی طاقت بھی اسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔

عالمی پائیدار امن، استحکام، خوشحالی اور ترقی کے لیے نہایت اہم ہے کہ دنیا میں طاقت کے مراکز ایک سے زائد ہوں اور دنیا کثیر قطبی ہو یک قطبی نہ ہو۔ چین امن، استحکام اور سرمایہ کاری میں شراکت کار ہے وہ عالمی آمر نہیں ہے وہ اپنے فیصلے، اپنا کلچر اور اپنی زبان دوسروں پر مسلط نہیں کرتا، اپنے مقاصد کے حصول کے لیے لوگوں کے ضمائر کی منڈی لگا کر انہیں خریدتا نہیں ہے۔ وہ طاقت کا توازن چاہتا ہے۔

چین مشرقی ایشیا کا اہم ملک اور دنیا کی آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ سے زائد ہے۔ اس کا رقبہ 96 لاکھ مربع کلومیٹر ہے اور رقبے کے اعتبار سے بھی یہ دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔
چین دنیا کی فیکٹری ہے۔ 1970ء میں اس کا عالمی پیداوار میں حصہ 3 فی صد تھا اب یہ 25 فی صد سے بھی زائد ہے۔ یہ دنیا کے 200 ممالک کو اشیا و خدمات برآمد کرتا ہے اور دنیا کے 80 فی صد ائر کنڈیشنر، 70 فی صد موبائل فون، 60 فی صد جوتے،74 فی صد سولر سیلز، 60 فی صد سیمنٹ، 50 فی صد کوئلہ، 45 فی صد بحری جہاز، 50 فی صد اسٹیل، صرف ایک ملک پیدا کرتا ہے اور وہ ملک محنت کی عظمت کی علامت ہے یعنی چین۔ دنیا کے 50 فی صد سیب کی پیداوار چین میں ہوتی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر امریکا ہے جو 7 فی صد سیب پیدا کرتا ہے۔ چین کی جی ڈی پی (پی پی پی) 30 ہزار 180 ارب ڈالر ہے۔ چین دنیا کا سب سے زیادہ برآمدات والا ملک ہے جس کی برآمدات 2 ہزار 200 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ جان کر آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ امریکا کے 90 فی صد پرچم بھی چائنا بناتا رہا ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ چین صرف سستی اور غیر پائیدار اشیاء بنا سکتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے 60 فی صد برانڈڈ فی کس اشیاء چین بناتا ہے۔ 1970ء میں چین افریقی ممالک سے بھی غریب تھا۔ 1978ء میں اس کی فیکس آمدنی صرف 155 ڈالر تھی جو بڑھ کر 7 ہزار 590 ڈالر ہو گئی جو 50 گنا اضافہ ہے۔ اس نے گزشتہ تیس سال میں 80 کروڑ افراد کو غربت کے دائرے سے نکالا ہے جو دنیا بھر کے لیے حیرت زدہ اور پاکستان بھارت جیسے ممالک کے لیے ایک سبق ہے۔ اس کی وسیع پیمانے پر پیداوار کی باہمی اور کم لاگت پر اشیاء تیار کرنے کی مہارت نے دنیا کے کئی ممالک کی تیار کردہ اشیاء کی قیمتوں کی پالیسی کو تباہ کر دیا ہے۔ چین جی ڈی پی ( پی پی پی) کے اعتبار سے 2014ء سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ 1978ء سے چین کی معاشی ترقی کی رفتار 10 فی صد رہی۔ چین 2010ء سے جی ڈی پی (نامینل) کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق چین کی جی ڈی پی 1978ء میں 150 ارب ڈالر 2017ء میں 12 ہزار 2 سو 40 ارب ڈالر، جبکہ 2023ء سے جی ڈی پی (نامینل) 19 ہزار 3 سو 77 ارب ڈالر جی ڈی پی (پی پی پی) 13 ہزار 721 ارب ڈالر ہے۔ 2023ء میں اس کی فی کس آمدنی (پی پی پی) 23 ہزار 721 جبکہ نامینل جی ڈی پی فی کس 33 ہزار 14 ڈالر ہے۔ چین دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ اور دوسرا بڑا درآمد کنندہ ہے۔ چین کے پاس دنیا کا سب سے بڑا بلٹ ٹرین کا نیٹ ورک ہے۔ چین کی سرحدیں 14 ممالک سے جڑی ہوئی ہیں اس اعتبار سے چین کا نمبر روس کے بعد دوسرا ہے۔

چین کی سرحدیں ویتنام، لاؤس، میانمر سے جنوب مشرقی ایشیا میں بھارت، بھوٹان، نیپال، افغانستان اور پاکستان سے جنوبی ایشیا میں تاجکستان، کرغیزستان سے وسط ایشیا میں، ملائیشیا، شمالی کوریا سے شمالی مشرق کی ایشیا میں جبکہ اس کی سمندری حدود جنوبی کوریا سے ملتی ہیں۔ چین دنیا کا دوسرا بڑا ہائی ٹیک بنانے والا اور دنیا کی دوسری بڑی اسٹیل مارکیٹ ہے۔ چین ای کامرس کا دنیا بھر کا لیڈر ہے اور اس کے پاس ای کامرس کی دنیا کی 50 فی صد مارکیٹ ہے۔ الیکٹرونکل گاڑیاں بنانے میں یہ دنیا کا لیڈر ہے، اور دنیا کی 50 فی صد الیکٹریکل گاڑیاں بناتا ہے۔ اس کے پاس 174 جی ڈبلیو کی 16 سولر استعداد ہیں جو دنیا کی 40 فی صد ہے۔ 2018ء میں ارب پتی افراد کی تعداد میں پہلا جب کہ کروڑ پتی افراد کی تعداد کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک تھا۔ چین میں 658 ارب پتی، 35 لاکھ کروڑ پتی افراد ہیں۔ 100چینی افراد کے پاس دنیا کی 10 فی صد دوات ہے۔ دنیا کی اوسط آمدنی رکھنے والے افراد کے اعتبار سے چین دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔

چین کو دنیا کا سب سے بڑا تجارتی ملک ہونے کا اعزاز 2013ء میں ہی حاصل ہو گیا تھا۔ 2016ء سے چین دنیا کے 124 ممالک کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ آسیان کی 15.2 فی صد تجارت چین کر رہا ہے۔ 2020ء میں چین یورپی یونین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور یورپ کے ساتھ اس کا تجارتی حجم 700 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ چین، آسیان، جاپان، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ کے ساتھ علاقائی معاشی تعاون کا رکن ہے جو دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارت علاقہ ہے اور دنیا کی تیس فی صد آبادی و معیشت پر مشتمل ہے۔