عام انتخابات : سیاسی بیانیہ

ملک میں انتخابی ماحول بننا شروع ہو چکا ہے اور سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد بنانا شروع کر دیئے ہیں، پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے تین صوبوں میں اپنے اتحادی چن لیے ہیں یا ان کے ساتھ چلنے کا اشارہ دے دیا ہے۔

 سندھ میں (نواز) لیگ ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کرے گی، جس کی اب رسمی کارروائی باقی رہ گئی ہے، بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی جبکہ خیبر پختونخوا میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دیا گیا ہے، مگر اصل معاملہ پنجاب کا ہے جہاں اتحاد کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا، کیا سندھ اور خیبر پختونخوا میں اتحاد کر کے (ن) لیگ کوئی فائدہ حاصل کر پائے گی ؟

ماضی میں ہونے والے انتخابات میں تو (نواز) لیگ سندھ اور خیبر پختونخوا میں تیسرے اور چوتھے نمبر کی جماعت کے طور پر بھی سامنے نہیں آسکی تھی، تحریک انصاف کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد اب (نواز) لیگ ان شہروں پر نظریں لگائے بیٹھی ہے جہاں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک تھا، ایم کیو ایم چونکہ سندھ کے شہری علاقوں میں ایک مضبوط جماعت رہ چکی ہے اور گزشتہ تین دہائیوں میں اقتدار کے ایوانوں میں ہی رہی ہے مگر 2018 ء میں کراچی میں تحریک انصاف نے ایم کیو ایم سے نشستیں چھینتے ہوئے 21 میں سے 14 سیٹوں پر کامیابی حاصل کر لی تھی، مگرایم کیو ایم کی قیادت کو (ن) لیگ کے ووٹ بینک سے زیادہ اس بات سے دلچسپی ہے کہ وہ اسے آئندہ حکومت بناتی نظر آ رہی ہے اور ان کی نظر میں یہ اتحاد دراصل انتخابات کے بعد کا ہے۔

ماضی میں بھی ایم کیو ایم (نواز) لیگ کے ساتھ اتحاد کر چکی ہے مگر وہ اتحاد الیکشن کے بعد ہوتے رہے، (نواز) لیگ بلوچستان میں بھی سرگرم ہے، میاں محمد نواز شریف خود کوئٹہ پہنچے اور سیاسی ملاقاتیں کیں، جام کمال اور سردار عبدالرحمان کھیتران سمیت تیس سے زائد سیاسی شخصیات کو (ن) لیگ میں شامل کر لیا ہے، خیبر پختونخوا کی سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے حتمی فیصلہ ہونا البتہ ابھی باقی ہے۔

تاہم بڑا فیصلہ پنجاب سے متعلق ہوگا‘استحکام پاکستان پارٹی (نواز) لیگ سے 30 سے 40 نشستوں کی امیدیں لگائے بیٹھی ہے جبکہ (ن) لیگ اتنی بڑی تعداد میں نشستیں آئی پی پی کو دینے کو تیار نہیں، (نواز) لیگ ان کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ آدھی درجن سے بھی کم سیٹوں پر کرتی دکھائی دے رہی ہے، استحکام پاکستان پارٹی اور اس کے مستقبل کے حوالے سے بہت سی پیچیدگیاں اور ابہام پائے جاتے ہیں، تحریک انصاف سے جنم لینے والی یہ جماعت تاحال طے ہی نہیں کر سکی کہ اس نے مسلم لیگ (نواز) کو ٹارگٹ کر کے چلنا ہے یا ساتھ لے کر۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال ختم کر دی گئی ہے، اس سے قبل سیاسی جماعتوں کو یقین ہی نہیں تھا کہ انتخابات ہوں گے، مگر عدالت نے 8 فروری کی تاریخ کو پتھر پر لکیر قرار دیتے ہوئے تمام ابہام اور قیاس آرائیوں کا دروازہ بند کر دیا، اب ایک ایسے وقت میں جب انتخابات کی تاریخ اچانک سر پر آن پڑی تو سیاسی جماعتوں نے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کئے اور سیاسی اتحاد اور منشور سازی پر کام شروع کیا، موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ (نواز) پہلی جماعت ہے جو منشور سازی پر باضابطہ کام کرتی نظر آ رہی ہے، سینیٹر عرفان صدیقی کی سربراہی میں قائم کی گئی منشور کمیٹی نے تیس ذیلی کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں جو 20 نومبر تک اپنی تجاویز مرتب کر کے مرکزی کمیٹی کو ارسال کریں گی۔

سینیٹر عرفان صدیقی سے جب یہ پوچھا کہ (نواز) لیگ اس منشور میں کیا شامل کرے گی کہ ملک میں ساڑھے پانچ کروڑ سے زائد نوجوان ووٹرز کو اپنی جانب راغب کر سکے گی تو ان کا کہنا تھا کہ ملک کو درپیش معاشی مسائل کا حل، نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع اور نجکاری جیسے تلخ فیصلے منشور کا حصہ ہوں گے، مگر (نواز) لیگ نے ماضی میں منشور پر زور دینے کی بجائے حکومت میں آکر ڈیلیور کرنے کی ساکھ بنائی ہے، تاہم(ن) لیگ کے ناقدین کا خیال ہے کہ حکومت بنانے کا دعویٰ اپنی جگہ مگر اس جماعت کے پاس عوام کے پاس جانے کیلئے مؤثر بیانیہ نہیں ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (نواز) یہ تاثر دینے میں تو بڑی حد تک کامیاب ہو چکی ہے کہ حالات جو بھی ہیں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں حکومت اسی کی بنے گی‘ یہ تاثر عوام کیلئے نہیں بلکہ ملک کے الیکٹیبلز‘ اتحاد کی خواہش رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور انتظامی مشینری کیلئے ہے، (نواز) لیگ کا دعویٰ اپنی جگہ مگر سیاسی میدان کے محرکات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، پاکستان میں ووٹرز، جن کی تعداد بارہ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور ان کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو گیم چینجر سمجھے جا رہے ہیں، انتظامی اور قانونی محاذ پر کامیابیاں اپنی جگہ مگر پولنگ ڈے پر اصل فیصلہ عوام نے ہی کرنا ہے۔

(ن)لیگ کے اعتماد کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی سب سے بڑی حریف جماعت پاکستان تحریک انصاف نہ صرف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے بلکہ اس کا سیاسی مستقبل بھی غیر یقینی ہے، پی ٹی آئی کی بڑی قیادت یا تو روپوش ہے یا پھر جماعت کو چھوڑ چکی ہے، (نواز) لیگ کا خیال ہے کہ ایسی حالت جس میں پی ٹی آئی کے پاس میدان میں اتارنے کیلئے الیکٹیبلز اور سیاسی اثر رکھنے والا کوئی نام نہیں تو اسے پچھاڑنا کوئی مشکل کام نہیں ہو گا۔

ایسے میں پاکستان تحریک انصاف کا بھی بڑا فیصلہ سامنے آیا ہے جس کے تحت انتخابات میں لیگل کمیونٹی کے ارکان کو تحریک انصاف کی جانب سے اتارا جائے گا، اس فیصلے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر وکلا حضرات انتظامیہ کی جانب سے پیش آنے والی مزاحمت کا مقابلہ کر سکیں گے، مگر یہ حکمت عملی بھی اسی وقت کسی حد تک کارگر ثابت ہو سکتی ہے جب بلے کا انتخابی نشان بیلٹ پیپر پر موجود رہ سکے گا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بلے کے انتخابی نشان کے مستقبل کے حوالے سے ایک فیصلہ محفوظ ہے، اگرچہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ یہ کہہ چکے ہیں کہ تحریک انصاف کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی مگر اس حوالے سے صورتحال واضح ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا، کچھ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ پاکستانی سیاست کے محرکات کو دیکھا جائے تو اس میں الیکٹیبلز اور تگڑے امیدواروں کے بغیر سیاسی جماعت کا بیانیے کی بنیاد پر الیکشن جیتنا مشکل کام ہے۔