غربت، مہنگائی اُور عام انتخابات

مہنگائی غربت میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہے۔ جب اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو عوام کی قوتِ خرید کم ہوجاتی ہے۔ اس سے غریب طبقے کے لوگوں کو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

حالیہ ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 9 اعشاریہ 95 فی صد اضافہ ہوا جو ملکی تاریخ میں ایک نئی بلند ترین سطح ہے۔ اس اضافے کے باعث سالانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح 42 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ یہ اضافہ گیس کی قیمتوں میں 480 فی صد اضافے کے باعث ہوا ہے۔ پہلی بار 4 ماہ میں ہفتہ وار مہنگائی 40 فی صد سے اوپر پہنچ گئی ہے۔ ڈان کی خبر کے مطابق ’’پہلے ہی حکومت نے گیس کی قیمتوں میں 194 فی صد اضافہ کردیا ہے، اب جنوری میں گیس مزید مہنگی کرنے کے اعلانات نے نہ صرف عوام بلکہ تاجر اور صنعت کاروں کے اندر بھی شدید بے چینی اور اضطراب پیدا کردیا ہے۔ گیس کی لوڈشیڈنگ سے صنعتی پیداوار بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے اور صنعت کاروں کے مطابق برآمدات کے پیداواری اہداف مکمل کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ اس سب کے اثرات دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی نمایاں طور پر نظر آرہے ہیں۔ مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر نچلا طبقہ ہے۔ دکاندار، خریدار، چھابے والا سب پریشان ہیں، ان کے لیے مہنگائی کی شرح 45 اعشاریہ 85 فی صد رہی ہے۔ اس طبقے کو اپنی گھریلو ضروریات پوری کرنا مشکل ہورہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کسی حکومت نے بھی اصل کام نہیں کیا، انہوں نے درآمدات پر انحصار کم کرنے اور مقامی پیداوار کو فروغ دینے کا کوئی پروگرام پیش نہیں کیا۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں تو اضافہ کرتے ہیں لیکن پیداوار میں اضافے کے لیے کوئی کام نہیں ہوا۔ سیلز ٹیکس ایک بوجھ بن گیا ہے جسے کم ہوناچاہیے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر کنٹرول کرنے میں بھی ہر حکومت کی طرح یہ حکومت بھی ناکام ہے۔ بدقسمتی سے یہ سب ہماری تاریخ کا تسلسل ہے، اور ہم غلامی کی جس دلدل میں دھنس چکے ہیں اس سے نکلنے کا کوئی راستہ اختیار کرنے کو تیار ہی نہیں، ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں، یا اگر احساس موجود بھی ہے تو مفادات کی وجہ سے اقتدار میں بیٹھی اشرافیہ جان بوجھ کر وطن ِ عزیز کو اسی طرح چلانا چاہتی ہے۔ جہاں ہمارا بڑا مسئلہ نااہل قیادت کا تسلسل ہے، وہاں اس سے جڑا مسئلہ عالمی ایجنڈا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے، اور یہ کوئی حل نہیں ہے، لیکن ہم اس کے شکنجے سے نکلنے کا راستہ اختیار کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ جب کہ ’’میر بھی کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب، اْسی عطار کے لونڈے سے دَوا لیتے ہیں‘‘ کے مصداق ’’نگران وفاقی وزیر خزانہ، محصولات و اقتصادی امور ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ ہماری معیشت اب تک نازک حالت میں ہے اور موقع ملا تو ہم ممکنہ طور پر آئی ایم ایف سے ایک اور قرض پروگرام حاصل کریں گے کیونکہ برآمدات میں اضافے اور مقامی وسائل پیدا کرنے تک آئی ایم ایف کے ساتھ رہنا ضروری ہے‘‘۔

مسئلہ موجودہ نگراں حکومت کا نہیں ہے بلکہ یہ ملک سے غداری اور نااہلی کا ایک تسلسل ہے، جس سے کرپٹ اشرافیہ نکلنے کی نہ تو نیت رکھتی ہے اور نہ اس کے پاس اخلاقی طاقت موجود ہے کہ وہ ایسا کرسکے، ملک جن کے ہاتھ میں ہے وہ حالات کو بہت زیادہ ٹھیک کرنا بھی نہیں چاہتے، وہ صرف حالات کو مینج کرنا چاہتے ہیں اور اس سارے کھیل کے پیچھے بظاہر خاموش امریکا ہے۔ امریکا آئی ایم ایف کی چھتری تلے جو کھیل اپنے ایجنڈے کے تحت کھیل رہا ہے اور جو بہانے تلاش کررہا ہے اْنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج پاکستان کی معاشی تباہی کی ہر کڑی بدترین اشرافیہ کے ذریعے آئی ایم ایف سے جاکر ملتی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ وطن ِ عزیز کے آئی ایم ایف سے جب مذاکرات ہوتے ہیں تو دونوں طرف آئی

پاکستان کی صورت حال وقت کے ساتھ بگڑتی جارہی ہے۔ 

آئی ایم ایف سے چھٹکارا اور ملک اور قوم کو آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑنے والے حکمرانوں سے نجات حاصل کیے بغیر عوام کی حالت بہتر نہیں ہوسکتی۔ کہا جارہا ہے کہ الیکشن کے بعد حالات ٹھیک ہوں گے، لیکن تاریخ یہ ہے کہ حالات بدسے بدتر ہی ہوئے ہیں، کیونکہ انتخابی منشور عموماً جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں اور سیاسی جماعتیں خود اپنے منشور پر عمل نہیں کرتیں۔