اسرائیلی جارحیت : عالمی احتجاج

بیس بائیس سال پہلے امریکا اور برطانیہ کے عراق پر حملے سے پہلے بھی بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے اور اجتماعات لندن، واشنگٹن اور نیویارک کی سڑکوں پر دیکھنے میں آئے تھے۔ اس وقت مغرب ایک ایسے داخلی خلفشار میں مبتلا نظر آرہا تھا جس کی کوئی مثال گزشتہ نصف صدی میں دکھائی نہیں دی تھی۔ کیا اس وقت مغربی عوام صدام حسین کی محبت میں گرفتار تھے؟ یا آج یکایک ان پر منکشف ہوا ہے کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے جس نے فلسطین کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کررکھا ہے اور وہ اس کی جنگجویانہ پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پرامن کے جھنڈے لہراتے ہوئے نکل آئے ہیں۔
ان مظاہروں کی حقیقت یہ ہے کہ مغرب میں شرح خواندگی بہت زیادہ ہے۔ بیش تر ممالک میں ننانوے اٹھانوے فی صد۔ وہ نظریاتی لوگ ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی دی ہوئی آزادیوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اخلاقی اعتبار سے بھی وہ ایک برتر مقام پر فائز ہیں۔ پالیسی کے طور پر ہی سہی وہ دیانتداری پر یقین رکھتے ہیں۔ جھوٹ بولنا آج بھی ان معاشروں میں بدترین تصور کیا جاتا ہے۔

امریکیوں نے بل کلنٹن کو مونیکا لیونیسکی سے ناجائز تعلقات پر تو معاف کردیا تھا لیکن جھوٹ بولنے وہ معاف کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہاں انسانی حقوق کا احترام بھی دیدنی ہے۔ وہ ایک ایسا معاشرہ اور تہذیب کھڑی کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو بظاہر مذہب بیزار ہے لیکن ان کے بیش تر اعمال اور روزمرہ کے معمول کے رویوں میں انسانیت، انسانی حقوق اور مذہبی تعلیمات کا عکس نظر آتا ہے۔

انسانی حقوق، جمہوریت، ماحولیات، عالمی قوانین مالیات اور عالمی آڈر کے حوالے سے عوام ایک موقف رکھتے ہیں۔ وہاں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے سیاست دان اور لیڈر اپنے بیان کردہ اصولوں، انسانیت کے دعووں اور عالمی قوانین کے حوالے سے جھوٹ، بددیانتی اور دوغلے پن کے مرتکب پائے جائیں۔


سامراجی، یہودی کنٹرولڈ مغربی میڈیا اپنی حکومتوں، اداروں اور حکمرانوں کی بد معاشیوں، اصولوں اور نظریات سے انحراف کو اپنے تجزیات اور خبروں کی فریب کاریوں کے ذریعے عوام سے پوشیدہ رکھنے میں بیش تر کامیاب رہتا ہے۔ جان توڑ ذمے داریوںکی ادائیگی کے بعد جب سرشام لوگ اپنے بیڈروم میں گھستے ہیں تو ان کا پہلا کام ٹی وی آن کرنا ہوتا ہے۔ وہ یہ خیال بھی نہیں کرسکتے کہ ان کے معتبر نیوز چینلوں پر ان سے جھوٹ بولا جارہا ہے اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بیان کیا جارہا ہے۔ اہل غزہ کے خلاف اسرائیل کی حالیہ جارحیت میں خبروں کے روایتی پلیٹ فارمزکا یہ ناقابل اعتبار کردار لوگوں پر آشکار ہوگیا۔ سوشل میڈیا، اسنیپ چیٹ، رئیل ٹائم ویڈیوز اور لائیو ٹریفک اپ ڈیٹس کے ذریعے لوگوں نے غزہ کی صورتحال براہ راست دیکھی تو یہ ان کے نظریات اور روایتی یہودی میڈیا پر پیش کردہ ’’حقائق‘‘ سے یکسر متصادم منظرنامہ تھا۔ انہوں نے اپنے حکمرانوں، ان کے بیان کردہ اصولوں اور انسانیت کے دعووں کو اسرائیلی جارحیت میں عملی شریک دیکھا تو اسے مروجہ مغربی نظریات کی کھلم کھلا خلاف ورزی، تضحیک اور تذلیل باور کیا جس پر وہ بڑا طبقہ جو مفاد پرست نہیں ہے اور اپنے نظریات سے مخلصانہ وابستگی رکھتا ہے اس کا انسانیت کے نام نہاد دعووں اور اپنی حکومتوں پر اعتماد ختم ہوگیا اور وہ حتجاج کرتا ہوا سڑکوں پر نکل آیا۔

ان عظیم الشان مظاہروں اور بڑی بڑی احتجاجی ریلیوں کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ شرکاء اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ پورے کا پورا فلسطین اہل فلسطین کا ہے اور یہودی وجود ایک غاصب قوت ہے جسے اس سرزمین سے نکل جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ اور اپنی حکومتوں کی قراردادوں کے مطابق وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسرائیل کو 1967 کی جنگ سے پہلے کی سرحدوں کی حدود کے اندر رہنا چاہیے۔ جب فلسطین کی سرزمین کا تین چوتھائی یا ستر پچھتر فی صد حصہ جس میں مسجد اقصیٰ اور یروشلم بھی شامل ہے اسرائیل کے قبضے میں تھااور بیس پچیس فی صد حصہ فلسطینیوں کے پاس تھا۔
مظاہروں کے شرکاء کو اس پر کوئی زیادہ اعتراض نہیں کہ یہودی وجود اب ان سرحدی حدود سے بھی بہت زیادہ آگے جا چکا ہے۔ اب فلسطین کے پچاسی نوے فی صد سے زائد حصے پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور فلسطینی صرف غزہ اور مغربی کنارے کی نام نہاد فلسطینی ریاست تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ جس میں غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل قراردیا جاتا ہے اور مغربی کنارے کی نام نہاد فلسطینی ریاست کی خود مختاری کی کوئی اوقات ہی نہیں ہے اسرائیلی فوجیں جب چاہتی ہیں یہاں داخل ہوجاتی ہیں۔ اسرائیل اس پانچ دس فی صد حصے پر بھی فلسطینیوں کی چھوٹی سی ریاست کو جو کسی بلدیاتی حکومت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
یورپی اور امریکی مظاہرین کو یہودی وجود کی پھیلتی ہوئی سرحدوں پر اعتراض ہے اور نہ فلسطینیوں کے روز بروز سکڑتے سمٹتے وجود پر۔ وہ زیادہ سے زیادہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق دو ریاستی حل پر یقین رکھتے ہیں۔ انہیںغم وغصہ اس بات پر ہے کہ اسرائیل اور امریکا اس چھوٹی سی ریاست کے شہریوں پر ظالمانہ بمباری کرکے انسانی حقوق اور نام نہاد عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہے ہیں اور ان نظریات اور اقدار سے انحراف کر رہے ہیں جو ان کے نزدیک اصول زیست کا درجہ رکھتے ہیں۔ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے مناظر دیکھ کران کے دوسری جنگ عظیم کے نازی جنگی جرائم کے زخم ہرے ہوجاتے ہیں اور وہ ان کی مرتکب اپنی حکومتوں کے خلاف اشتعال میں آکر سڑکوں پر آجاتے ہیں۔
اب آئیے اس سوال پر کہ کیا اس قسم کے مظاہروں کی کوئی حقیقی معنویت ہے؟ کیا ان سے کوئی فرق پڑے گا؟ کیا مظاہروں سے کوئی ایسا دبائو پیدا ہوا ہے کہ مغربی حکومتیں اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور ہوسکیں؟ جواب ہے نہیں۔ جمہوریت کے تمام تر دعووں اور ناانصافیوں کے خاتمے کی ایک پرامن صورت ہونے کے دعووں کے باوجود مغربی حکمران طبقہ، سیاست دان اور سماجی منتظمین اعلیٰ اخلاقی اور انسان دوست اقدار کے محافظ ہونے کے بجائے طاقت اور برہنہ طاقت کے محافظ نظر آتے ہیں۔