یادش بخیر پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن (پی آئی اے) کا شمار کبھی دنیا کی بہترین ائر لائنز میں کیا جاتا تھا، اس ادارے کا ماضی تو بہت شاندار رہا، لیکن حال بہت برا ہے۔
آزادی سے قبل 1946ء میں ابتدائی طور پر ’’اورینٹ ائرویز‘‘ کے نام سے قائم ہونے والی یہ فضائی کمپنی ایک وسیع تاریخ رکھتی ہے۔ 1955ء میں پاک ائرویز، اورینٹ ائرویز اور کریسنٹ ائرویز کو یکجا کرکے پی آئی اے کا نام دیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پی آئی اے نے کم وسائل کے باوجود نمایاں کامیابیاں اپنے نام کیں۔ ائر مارشل اصغر خان اور ائر مارشل نور خان نے پی آئی اے کو ایک مثالی ادارہ بنانے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا، ائر مارشل اصغر خان پاک فضائیہ کے پہلے کمانڈر انچیف تھے۔ 1965ء سے 1968ء تین سالہ دور پی آئی اے کی ’’گولڈن ایج‘‘ کہلاتا تھا۔ اس عرصے میں پی آئی اے حادثاتی اعتبار سے دنیا کی سب سے محفوظ ائرلائن بن گئی تھی اور پروازوں کے شیڈول اور کیبن سروس کے اعتبار سے پانچ بڑی ائر لائنز میں شمار ہوتی تھی۔ ماضی میں ہوا بازی کے شعبے میں دنیا کی مختلف ائرلائن کمپنیوں نے پی آئی اے کے ماہرین سے تربیت حاصل کی۔ پی آئی اے دنیا کی پہلی ائرلائن ہے جس نے دوران پرواز مسافروں کو فلمیں دکھانے کا آغاز کیا۔ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں پی آئی اے نے بوئنگ 707 کے ذریعے ائر فورس کے لیے ٹرانسپورٹ کے بھی فرائض انجام دیے۔ پی آئی اے وہ قومی ادارہ ہے جو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں عالمی سطح پر ایک کامیاب اور منافع بخش ائر لائن تھی تاہم ستر کی دہائی کے وسط میں اس میں خرابیاں پیدا ہونی شروع ہوئیں اور اس کا منافع کم ہونا شروع ہوا۔ 80 کی دہائی میں بھی اس کی حالت مناسب رہی مگر اس میں خرابیاں بڑھتی گئیں۔
پی آئی اے کی بحالی بالکل ممکن ہے، اس سلسلے میں ملایشیاء اور امریکا کی قومی ائر لائن سمیت دنیا کی متعدد ائر لائنز کی مثالیں بھی موجود ہیں جو شدید خساروں کا شکار چلی آرہی تھیں لیکن مثبت اور قابل عمل اقدامات کے بعد منافع بخش بن کر آج کامیابیوں کا تسلسل قائم کیے ہوئے ہیں۔ البتہ مخلصانہ اور ایماندارانہ کوششوں اور موثر حکمت عملی سے پی آئی اے کو پھر سے ایک کامیاب ائر لائن بنایا جا سکتا ہے۔ اتحاد ائرویز، قطر ائرویز، ایمریٹس ائرویز اور را ائر بلیو جیسی فضائی کمپنیاں آج منافع میں جا رہی ہیں۔ اگر یہ فضائی کمپنیاں بہتر طور پر چل سکتی ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ پی آئی اے دنیا کی بہترین افرادی قوت ہونے کے باوجود مسلسل خسارے کا شکار ہے۔ پی آئی اے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے اس میں کرپشن کے دروازے بند کرنے ہوں گے۔ سیاسی مداخلت، فرائض کی انجام دہی میں ملازمین کی عدم دلچسپی اور مختلف شعبوں میں رابطوں کے فقدان جیسے مسائل سے جلد چھٹکارہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ 50 سے لیکر 70 کی دہائی تک پی آئی اے دنیا کی بہترین ائر لائین تھی، دنیا بھر کے امرا اور حکمران اس میں سفر کو ترجیح دیتے تھے، یہی نہیں بلکہ اس ائر لائین نے مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک کی ائر لائنز کو اپنے طیارے دے کر کھڑا کیا، پھر حرماں نصیبی سے قومی ائر لائین سیاسی اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ان حالات میں جب بھی حکومت اس ادار ے کی نجکاری کا فیصلہ کرتی ہے تو پی آئی اے انتظامیہ اور ملازمین، سول ایوی ایشن کی وزارت اور حزب اختلاف مل کر اس کی مخالفت کرتی ہیں۔ ضروری ہے کہ کوئی ایسا راستہ نکالا جائے جو حکومت اور ائر لائین کے عملے کے لیے بھی قابل قبول ہو، وگر نہ حکومت کو خود ہی فیصلہ کرنا پڑے گا جو شاید کچھ لوگوں کے نزدیک تلخ ہو جبکہ پی آئی اے کی تنظیم نو پیچیدہ عمل ہے مکمل کرنے میں ایک سال درکار ہے۔ تنظیم نو کے دوران پی آئی اے کا آپریشنل رہنا اشد ضروری ہے جبکہ پی آئی اے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بیرونی سرمایہ کاری سے چلانے کا بڑا منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے۔
قرضوں کے دلدل میں پھنسی قومی ائر لائن کی بحالی کے منصوبے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز کارپوریشن (پی آئی اے سی ایل) کی تقسیم کا باقاعدہ عمل بورڈ برائے نجکاری کمیشن کی جانب سے لین دین کے لیے مالیاتی مشیر مقرر کرنے کا فیصلہ ہو گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ارنسٹ اینڈینگ کی زیر قیادت کنسورشیم دلچسپی رکھنے والے 8 اداروں میں فاتح بن کر ابھرا جنہوں نے پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز کار پوریشن کی نجکاری کے لیے مالیاتی مشیروں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے اپنی تکنیکی اور مالی تجاویز پیش کی تھیں۔ اسی طرح ائر لائن میں بدعنوانی یا خورد برد کو بھی روکا جائے مینجمنٹ کو ضرورت کے مطابق مختصر کیا جائے تو قومی ائر لائن ملک کے لیے باعث فخر بن سکتی ہے۔