اسلاموفوبیا : نئی لہر کا خدشہ

اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں اور فلسطینیو ں کے ساتھ روا پچھتر سالہ سلوک اور ان کے مستقبل کے ارداوں سے الگ کر کے پیش کرنا شروع کیا ہے اس سے مسلمانوں کے خلاف مغرب میں نفرت کی نئی لہر اُٹھنا یقینی ہے۔ نائن الیون کے بعد بھی مغربی میڈیا نے جو رویہ اپنایا تھا اس کا نتیجہ اسلاموفوبیا کی بدترین لہر کی صورت میں برآمد ہوا تھا۔ گو کہ مغرب میں انصاف پسند ذہن بھی موجود ہے جو مشرق وسطیٰ کے تنازعے کو تاریخی پس منظر میں دیکھتا ہے مگر مغرب کی حکومتیں اور اسٹیبلشمنٹ پر امریکا کا غالب اثر ہے اور اسی وجہ سے مغربی ممالک وہی زبان بولتے ہیں جو امریکا ان کے اندر فیڈ کرتا ہے۔ یوں مغربی ممالک امریکا کے ڈیجیٹل توتے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مسلمان ممالک بھی اس معاملے میں امریکا کی لائن پر ہی عمل پیرا ہوتے ہیں۔

امریکا جس بے دردی سے اسرائیل کے ہر جائز وناجائز کا دفاع کررہا ہے اس سے مغرب کی رائے عامہ کے ایک بڑے حصے کو یہ لگتا ہے کہ فلسطینی ظالم اور مغربی کلچر کے مخالف ہیں جبکہ اسرائیل مظلوم اور مغربی تہذیب کا نمائندہ اور علامت ہے۔ حماس کو ایک جارح اور دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور اسرائیل کو ایک مظلوم کردار بتایا جا رہا ہے جو ایسے مسلمان ملکوں میں گھرا ہوا ہے جو اس کا وجود مٹانے کے درپہ ہیں۔

اسرائیل کے مظالم اس کی ہوس زمین فلسطینیوں کا وجود مٹانے کی روش کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یوں عالمی کٹہرے میں اصل مظلوم یعنی فلسطینی عوام کا ظالم اور اصل ظالم اسرائیل کو مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

میڈیا جب باربار مسلم ٹیررسٹ کہتا ہے تو اس سے مسلمانوں کا تصور آتے ہی ان کے ذہنوں میں ایک دہشت گرد کا سراپا بنتا ہے اور یوں ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت جنم لیتی ہے۔ یہی اسلامو فوبیا کی بنیاد بنتی ہے۔ جب ذہن نفرت سے بھر جاتے ہیں تو جنوبی افریقا جیسے روح فرسا واقعات جنم لیتے ہیں جہاں ایک جنونی نے مسجد پر حملہ کرکے درجنوں مسلمانوں کا شہید کیا تھا۔ اس وقت مغربی میڈیا نے منہ میں گھگھنیاں ڈالدی تھیں اور کسی بھی لمحے قاتل کو کرسچئن ٹیررسٹ کا نام نہیں دیا تھا۔ اس واردات کو اس کا ذاتی فعل کہا گیا تھا۔ گویا کہ اس واردات کا قاتل کے مذہب رنگ ونسل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایسی ہی ورادات اگر کوئی مسلمان کرتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے مذہب اور ملک کا ذکر کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔

مغربی میڈیا نے اس طرح اپنی رائے عامہ کی ذہن سازی نفرت کے انداز میں کی ہے۔ اسرائیل کی جارحیت اور فلسطینیوں کے حالیہ قتل عام پر بھی مغربی ملکوں اور میڈیا کا یہی رویہ ہے۔ جس سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ مغرب میں اسلاموفوبیا کی نئی لہر چل پڑے گی۔