لاہور ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی کا شہر سموگ کی چادر میں لپٹا ہوا ہے اور اب حکومت نے فضائی آلودگی سے نمٹنے کیلئے ہوا صاف کرنے والے ٹاورز لگانے کا اعلان کیا ہے، عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ہوا میں آلودگی کے ذرات کی شرح کی مقرر کردہ زیادہ سے زیادہ حدPM2.5 ہے، جبکہ لاہور میں آلودگی اس سے 20 گنا زیادہ ہو چکی ہے۔
اس تشویشناک صورتحال میں نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اعلان کیا ہے کہ حکومت صحت کے خطرات کو روکنے کیلئے ایک درجن ’’ایئر فلٹر آئنائزیشن یونٹس‘‘ یا ’’سموگ ٹاورز‘‘ لگائے گی، فضائی آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے اور ہوا کو دوبارہ سانس لینے کے قابل بنانے کیلئے ٹیکنالوجی کی دنیا میں یہ ایک نئی پیشرفت قرار دی جاتی ہے، یہ ایک ٹاور کی شکل میں ہوتا ہے جسے کھلے میدانوں یا خالی جگہوں پر لگایا جا سکتا ہے اور اس کے ارد گرد 1600 مربع میٹرکے رقبے تک آلودگی کو ختم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
سموگ ٹاورز یا سموگ فری ٹاورز فضائی آلودگی کے ذرات (سموگ) کو کم کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر ایئر پیوریفائر کے طور پر ڈیزائن کئے جاتے ہیں، دنیا کا پہلا سموگ فری ٹاور ڈچ آرٹسٹ ڈان روزگار ڈے نے تیار کیا تھا، اس کا افتتاح ستمبر 2015 ء میں روٹرڈیم میں کیا گیا، بعد میں اسی طرح کے ٹاور چین میں بیجنگ اور تیانجن، پولینڈ کے شہر کراکاؤ اور جنوبی کوریا کے شہر اینیانگ میں لگائے گئے، 2016ء میں چین کے شہر ژیان شانسی میں 100 میٹر اونچا سموک ٹاور لگایا گیا، جس پر 20 لاکھ ڈالر لاگت آئی تھی جبکہ اسے چلانے کا خرچ سالانہ 30 ہزار ڈالر ہے، یہ چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹی ٹیوٹ آف ارتھ انوائرمنٹ کے محققین کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔
دیگر سموگ ٹاورز
دوہزاردو تک بھارت میں کم از کم آٹھ سموگ ٹاورز لگ چکے تھے، جن میں سے کچھ چھوٹے پیمانے پر ہیں جبکہ دہلی ہی میں انڈیا کورین سسٹمز 12 میٹر (40 فٹ) اونچا سموگ ٹاور لگا رہا ہے، جسے ’’کورن سٹی کلینر‘‘ کا نام دیا گیا ہے، یہ ڈان روزگارڈ کے سموگ ٹاور سے مختلف ہے کیونکہ یہ ہوا کو صاف کرنے کیلئے آئنائزیشن تکنیک پر انحصار نہیں کرے گا، یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ٹاور تین کلومیٹر کے دائرے میں 75ہزار لوگوں کیلئے ہوا کو فلٹر کرے گا اور ہر روز 32 ملین مکعب میٹر سے زیادہ ہوا صاف کرے گا۔
تاہم فضائی آلودگی کے کچھ ماہرین سموگ فلٹریشن ٹاورز کی کارکردگی کو مؤثر نہیں سمجھتے، مثال کے طور پر یارک یونیورسٹی میں ایٹموسفیرک کیمسٹری کے پروفیسر، نیشنل سینٹر فار ایٹموسفیرک سائنس کے سائنس ڈائریکٹراور ایئر کوالٹی ایکسپرٹ گروپ کے چیئر، ایلسٹر لیوس نے دلیل دی ہے کہ بیجنگ اور دہلی میں ہوا صاف کرنے والے پروٹو ٹائپس جیسے سسٹم شہری آلودگی میں قابل ذکر بہتری لانے کیلئے شہر کی ہوا کو فوری طور پر پراسیس نہیں کر سکتے۔
لیوس کا استدلال ہے کہ سموگ ٹاورز لگانے کے بجائے ایسی ٹیکنالوجیز اور سکیموں کے ساتھ آنا بہت آسان ہے جو نقصان دہ دھوئیں اور گیسوں کے اخراج کو روکتی ہیں، بجائے اس کے کہ اس دھوئیں کے ہوا میں شامل ہونے کے بعد اس کے نتیجے میں ہونے والی آلودگی پر قابو پانے کی کوشش کی جائے۔
یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ دہلی ٹاور (زیادہ تر) کوئلے سے چلنے والی بجلی سے چلایا جائے گا، انڈیا کے سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر سے تعلق رکھنے والے سنیل دہیا نے تبصرہ کیا کہ ہم صرف ملک میں کہیں اور آلودگی میں اضافہ کریں گے، ٹائمز کے مطابق ماہرین ماحولیات نے اس بنیاد پر دہلی پراجیکٹ کی مخالفت کی کہ شہر کے سائز اور اس کی آلودگی کے پیمانے کو دیکھتے ہوئے اس کی ہوا کو صاف کرنے کیلئے 25 لاکھ سموگ ٹاورز کی ضرورت ہوگی۔
اسی سال ماہ کے شروع میں خبر آئی تھی کہ دہلی پر سموگ کی گھنی چادر چھا جانے کے باوجود کناٹ پیلس میں لگا سموگ ٹاور، جس کا افتتاح وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے 2021 میں بہت دھوم دھام سے کیا تھا ،بند کر دیا گیا ہے، اس ٹاور پر 23 کروڑ بھارتی روپے لاگت آئی تھی مگر یہ اس ضرورت کے وقت کام نہیں کر رہا ہے جبکہ دہلی اور اس کے پڑوسی علاقوں میں ہوا کے معیار کی خطرناک سطح دیکھی جا رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق سموگ ٹاورز بے اثر پائے گئے ہیں، اس لئے سموگ ٹاور کا انتظام کرنے والے انجینئرز، آپریٹرز اور ہیلپرز سمیت 10 افراد کی ایک ٹیم کو بھی سات ماہ قبل ملازمت سے فارغ کردیا گیا تھا، 24 میٹر اونچا یہ سموگ ٹاور ایک کلومیٹر کے دائرے میں فی سیکنڈ 1000 کیوبک میٹر ہوا صاف کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا، اس پر 40 پنکھے اور 5,000 ایئر فلٹرز لگے تھے، مگر اس کی کارکردگی اس کی ڈیزائن توقعات کے مقابلے میں بہت ہی کم رہی ہے، دہلی آلودگی کنٹرول کمیٹی (ڈی پی سی سی) نے سموگ ٹاور کو بند کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب یہ انکشاف ہوا کہ سموگ ٹاور سے 100 میٹر کے فاصلے پر پارٹیکیولیٹ میٹر (پی ایم) میں صرف 12 فیصد سے 13 فیصد تک کمی آئی ہے۔