عالمی تحقیقی ادارے ’’اکسفیم‘‘ نے موسمیاتی بحران اور اس کی تباہ کاری کے بارے میں شائع ہونے والی نئی رپورٹ میں دنیا کے امیر ترین افراد کو اس کا ذمے دار قرار دیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کا ایک فی صد طبقہ زمین پر موجود دو تہائی غریب ترین طبقے کے مقابلے میں بہت زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا سبب بنتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سفید فام ارب پتی ماحول کو نقصان پہنچانے میں پیش پیش ہیں۔ اس کی مثال دیتے ہوئے رپورٹ تیار کرنے والے ماہرین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ مائیکروسافٹ کے مالک بل گیٹس، ایمازون کے مالک چیف بینزوس، امریکی کمپنی اوریکل کے بانی لیری ایلیسن، ٹیسلا اور ایکس کے سربراہ ایلون مسک اور میکسیکو کی کاروباری شخصیت کارلوس سلم جیسے لوگ شامل ہیں جن کے اقدامات، بڑی بڑی سرمایہ کاریاں، نجی پرتعیش جہاز، طیارے اور دیگر اشیا شامل ہیں۔
رپورٹ کی اہمیت یہ ہے کہ ماحولیات عہد حاضر کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ دنیا بھر میں صنعتی ترقی کے نتیجے میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بڑھ گیا ہے جس نے انسانی زندگی کو بہتر بنانے کے ساتھ خطرے میں بھی مبتلا کردیا ہے۔ جس کا احساس پوری دنیا میں پایا جاتا ہے۔ اس بات کی عالمی ادارے اقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان میں تسلسل سے آنے والے سیلاب کا سبب عالمی سطح پر موسمیاتی بحران ہے۔ اس کی ذمے داری اقوام متحدہ نے بڑے اور ترقی پزیر ممالک پر ڈالی ہے جن کی صنعتوں، جہازوں اور گاڑیوں سے زہریلا دھواں خارج ہوتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی بحران کے حوالے سے ان شخصیات کو اس کا احساس بھی ہے کہ دنیا رہنے کے قابل نہیں رہی۔ اس لیے وہ کسی اور سیارے پر بستی بسانے اور انسانوں کو وہاں منتقل کرنے کے منصوبے پر بھی غور کررہے ہیں۔ اس کی ایک مثال ایلون مسک ہیں جو مریخ پر بستی بسانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ موسمیاتی بحران اور ماحولیاتی آلودگی کی تباہ کاریوں سے واقف ہونے کے باوجود اس کے حقیقی علاج پر توجہ نہیں دی جاتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنسی ترقی کے ذریعے حاصل ہونے والے علم اور وسائل پر اس طبقے کا تسلط ہے جو آدم کو زمین پر بھیجے جانے کے مقصد سے غافل ہے اور اس نے اس بات سے آنکھیں بند کرلی ہیں کہ اسے اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے اس نے اس مقصد کو بھلا دیا ہے۔ اور ساری توانائیاں صرف دولت و اقتدار کے ارتکاز پر توجہ دے دی ہے۔