عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردارکیا تھا کہ غزہ کے الشفا وہاں مریضوں کو اسرائیل افواج نے موت کے گھاٹ اُتارنے میں مدد کی ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے یہ بھی بتایا یے کہ وہاں کے ڈکٹرز اور نرسوں سے آخری بار رابطہ ہوا تو ان کا کہنا تھاکہ ’’ہمیں یقین ہے کہ چند منٹوں میں دنیا سے رخصت ہو جائیں گے اس لیے کہ اسپتال کے باہر اور اسپتال کے متعدد کمروں میں اسرائیلی سپاہی ڈاکٹروں نرسوں اور مریضوں کو موت کے کھاٹ اُتار رہے ہیں۔ ان شاء اللہ اب ہم جنت میں ہی مل سکیں گے۔ دنیا میں ملاقات ناممکن ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی غزہ سے ایک دلخراش گونج بوڑھے دادا کی دنیا کے متعدد چینلوں اور سوشل میڈیا پر بھی سنی جارہی ہے کہ دادا اپنے شہید پوتوں اور پوتیوں کی میت سے کہہ رہا ہے ’’ختم رسولؐ مولائے کل سے جاکر شکایت کرنا کہ جب فلسطینیوں کو اسرائیل ٹکڑے ٹکڑے کر رہا تھا تو دنیا بھر کے مسلمان ہماری موت کا منظر اسی طرح دیکھ رہے تھے جیسے کافر ہمیں مار کر خوشی اور جشن منا رہے تھے۔ لیکن ’’کارواں کے دل سے احساسِ ضیاں جاتا رہا‘‘ کے مصداق ہم مسلمانوں نے سوچ رکھا ہے کہ ہمیں صرف دنیا میں زندہ رہنا اور ترقی کے لیے آئی ایم ایف اور امریکا کی رضا پوری کائنات کی رضا سے بہتر بن چکی ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام غزہ کو خوراک کے بحران اور بڑے پیمانے پر بھوک کا سامنا ہے۔ عالمی ادارہ خواراک نے پریس ریلیز میں خبردار کیا ہے کہ غزہ کو بہت بڑے خوراک کے بحران اور بڑے پیمانے پر بھوک کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں اموات کا خدشہ ہے۔ عرب نیوز کے مطابق عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک ضرورت کی صرف 10 فی صد اشیا غزہ کے رہائشوں کو مل سکی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سینڈی میکین کا کہنا ہے کہ ’خواراک اور پانی کی ترسیل غزہ میں نہ ہونے کے برابر ہے اور ضرورت کی اشیا کی نہایت قلیل مقدار بارڈر سے داخل ہو رہی ہیں۔ ’بڑھتی ہوئی سردی، غیرمحفوظ چھوٹے گھر اور رہائشی افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ صاف پانی کی کمی کی وجہ سے عام شہریوں کو فوری قحط کے خطرے کا سامنا ہے۔ اور اس وقت لوگوں کی خوراک کی ضروریات صرف ایک فعال بارڈر کراسنگ سے پورا کرنا ناممکن ہے‘۔ غزہ میں خوراک پہنچانے کے لیے ایک اور راستہ کھولنا ضروری ہے۔ گزری جمعرات کو عالمی ادارہ خوراک کے ایک اور اہلکار نے کہا تھا کہ اگر فوری اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو غزہ ’بھوک کے جہنم میں گرنے‘ والا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے اشتراک سے کام کرنے والی غزہ کی آخری بیکری بھی رواں ہفتے ایندھن کی غیرموجودگی کی وجہ سے بند کر دی گئی تھی۔
ادارے کا کہنا ہے کہ ایندھن کی قلت کی وجہ سے غزہ کی پٹی میں ان کے اشتراک سے کام کرنے والے تمام 130 بیکریاں بند ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ غزہ کے لوگوں کی بنیادی خوراک، روٹی، کی قلت ہے یا بالکل ناپید ہوگئی ہے۔ ایندھن کا بحران جاری ہے اور اسرائیلی آپریشن نے انسانی ہمدری کی بنیاد پر امداد اور خوراک کی تقسیم کو بھی بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی کچھ بے رحم گفتگو بھی سن لیں، ان کا فرمان ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو پر واضح کر دیا ہے کہ دو ریاستی حل ہی اسرائیل فلسطین تنازع کا واحد راستہ ہے۔ بائیڈن آپ امریکا کے پہلے اور آخری صدر نہیں ہیں جو دو ریاستی حل ہی اسرائیل فلسطین تنازع کا واحد حل بتا رہے ہیں آپ سے قبل امریکا کے ایک درجن سے زائد صدور یہ جھوٹ بولتے رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے رائوٹرز کے مطابق گزرے بدھ کو کیلی فورنیا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کو یہ بتایا ہے کہ غزہ پر قبضہ ’بڑی غلطی‘ ہو گی۔ یہ غلطی اسرائیل کر چکا ہے لیکن اسرائیل کی پوری تاریخ انسانوں کے قتل سے بھری پڑی جس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کا قتل یہودی کر چکے اور اب بھی ایسا ہی ہونے والا ہے۔ بائیدن کا کہنا تھا کہ وہ حماس کی جانب سے یرغمال اسرائیلیوں کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں تاہم اس کا مطلب امریکی فوج کو بھیجنا نہیں تھا۔ اس کا مطلب بتا کر امریکی صدر نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے ہمراہ الشفاء اسپتال پر حملے میں امریکی، برطانوی، کینڈین اور دیگر ممالک افواج بھی شامل تھیں جس کی مدد سے حماس کا ہیڈ کوارٹر تلاش کرنے کوشش کی جاتی رہی ہے منگل کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر نے یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق ایک بیان دیا تھا کہ ’حوصلہ رکھیے، ہم آرہے ہیں‘ لیکن اس بیان کے بارے میں سوال اٹھے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔
بیان کی وضاحت سے متعلق جب ان سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کا مطلب تھا کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے اور ان کا مطلب وہاں فوج بھیجنے کا نہیں تھا۔ بائیڈن نے مزید کہا کہ وہ اس معاملے پر مسلسل کام کر رہے ہیں اور اس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک تین برس کے بچے سمیت یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا جاتا۔ کیا اس سے یہ بات کھل کر سامنے نہیں آرہی کہ امریکا اسرائیل کے ساتھ مل غزہ پر حملے اور بمباری جاری رکھے گا۔ قطر جہاں حماس کا سیاسی دفتر کام کر رہا ہے، حماس اور اسرائیلی عہدیداروں کے درمیان 240 سے زیادہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ثالثی کر رہا ہے۔