رواں ہفتے کا ایک اہم سیاسی واقعہ مسلم لیگ نواز آزاد جموں و کشمیر کے عہدیداران کا انتخاب تھا جس میں جماعت کی جنرل کونسل نے ایک مرتبہ پھر میاں نواز شریف کے نامزد صدر شاہ غلام قادر کو اسی عہدے کے لئے دوبارہ بلامقابلہ منتخب کرلیا۔
یاد رہے کہ چھ اکتوبر 2023 کو آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے فل بنچ نے چار درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ جو سیاسی جماعت آزاد جموں و کشمیر کے قوانین کے مطابق رجسٹرڈ نہیں ہے وہ اپنے عہدیداران کو شو کاز نوٹس جاری نہیں کر سکتیں ، لہذا الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کی آئین اور قانون کے مطابق رجسٹریشن کو یقینی بنائے اور سیاسی جماعتوں کی قیادت کا انتخاب انٹرا پارٹی الیکشن کے ذریعے عمل میں لایا جائے۔
یوں آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کی رجسٹریشن ختم ہو گئی ۔
مسلم لیگ نواز بغیر کسی تاخیر کے عدالتی حکم کے مطابق نئی قیادت کا انتخاب عمل میں لائی جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی طرف سے اب تک اس حوالے سے کوئی سر گرمی نظر نہیں آرہی ہے۔
آزاد جموں و کشمیر میں مسلم لیگ نواز کا قیام سال 2010 میں عمل میں لایا گیا تھا اور ابتدا میں راجہ فاروق حیدر اور شاہ غلام قادر اس کے بالترتیب چیف آرگنائزر اور آرگنائزنگ سیکریٹری مقرر کیے گئے تھے۔
2016 کے انتخاب میں اس جماعت نے دو تہائی اکثریت حاصل کی لیکن پانچ سال ڈٹ کر حکومت کرنے کے بعد 2021 کے انتخابات میں آزاد جموں و کشمیر کے 33 انتخابی حلقوں میں سے صرف چار امیدوار الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
سابق سپیکر شاہ غلام قادر اپر نیلم ، وقار نور برنالہ ، عامر الطاف ہجیرہ اور گیارہ سال تک جماعت کے صدر ، پانچ سال اپوزیشن لیڈر و پانچ سال تک وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے راجہ فاروق حیدر اپنے آبائی حلقہ چکار سے محض چند سو ووٹوں سے جیت حاصل کرسکے ۔
آزاد جموں و کشمیر میں راجہ فاروق حیدر کی قیادت میں سال 2021 کے عام انتخابات میں بد ترین شکست کے بعد مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی مشاورت سے آزاد کشمیر میں تنظیمی کمیٹیوں کو تحلیل کر کے شاہ غلام قادر کو چیف آرگنائزر بنا دیا گیا۔
شاہ غلام قادر نے ریکارڈ کم عرصے میں مسلم لیگ نواز آزاد جموں و کشمیر کے تمام انتخابی حلقوں میں تنظیم سازی کا عمل مکمل کر دیا تاہم اسلام گڑھ اور راجہ فاروق حیدر کے انتخابی حلقوں چکار اور لیپہ ویلی میں ابھی تک تنظیم سازی نہیں ہو سکی۔
اسی دوران سال 2022 کے آخر میں پاکستان تحریک انصاف کے سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس خان نے بلدیاتی انتخابات کرائے جن میں شاہ غلام قادر کی قیادت میں مسلم لیگ نواز دوسرے نمبر پر رہی۔
مسلم لیگ نواز آزاد جموں و کشمیر نے 10 میں سے تین اضلاع میں چیئرمین ضلع کونسل، دو میں وائس چیئرمین کے علاوہ مظفرآباد کی میئر شپ اپنے نام کی ، پورے آزاد جموں وکشمیر میں متعدد یونین کونسلز کے چیئرمین بھی بنے جو جماعت کے صدر شاہ غلام قادر کی طرف سے میرٹ اور کارکنان کی مشاورت سے قائم کی گئی نئی تنظیم سازی کا ثمرتھا۔
نواز شریف کی وطن واپسی کے استقبالیہ پروگرام کے حوالے سے شاہ غلام قادر نے ستمبر کے مہینے میں ہی ڈور ٹو ڈور مہم شروع کر دی تھی اور اس سلسلے میں پہلا کنونشن راولپنڈی میں ہوا جس سے مریم نواز نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا، بعدازاں آزاد جموں و کشمیر کے دس اضلاع میں رابطہ عوامی مہم تیز کر دی گئی۔
نواز شریف کی آمد سے چند دن قبل ان کے استقبال کے حوالے سے میر پور میں آخر ی جلسوں میں برجیس طاہر نے بھی شرکت کی تھی، یوں آزاد جموں و کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار 12 سے پندرہ ہزار لوگ دس اضلاع سے ٹولیوں کی شکل میں نواز شریف کے استقبال کے لئے راولپنڈی سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے۔
آزاد جموں و کشمیر میں شاہ غلام قادر کی طرف سے میرٹ پر تنظیم سازی ، بلدیاتی انتخابات میں محدود وسائل کے باوجود جماعت کو دوسرے نمبر پر لانا اور پھر نواز شریف کے استقبال کے لئے ہزاروں کارکنان کو مینار پاکستان پہنچانے کے عمل نے ن لیگ کی مرکزی قیادت کو مجبور کردیا کہ وہ شاہ غلام قادر کے مقابلے میں انٹرا پارٹی الیکشن میں صدارتی امیدوار لانے کے بجائے انہیں ہی دوبارہ پانچ سال کے لئے مسلم لیگ ن آزاد جموں و کشمیر کا بلامقابلہ صدر بنادیں ۔
دوسری جانب دارالحکومت مظفرآباد میں یہ اطلاعات تواتر سے آرہی ہیں کہ وزیر اعظم چودھری انوارالحق کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے تین سابق وزرائے اعظم ایک پیج پر آگئے ہیں اور ابتدائی طور پر تینوں کی ایک سرمایہ دار کے گھر اس حوالے سے نشست بھی ہوئی ہے ، تین میں سے دو اپنے آپ کو وزیر اعظم چودھری انوار الحق کی فراغت کی صورت میں خود کو ان کے متبادل کے طور پر پیش کر رہے ہیں تاہم ابھی تک ان کی بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی۔
دریں اثنا اسی ہفتے وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر چوہدری انوار الحق نے اپنی حکومت کو مزید مستحکم کرنے کے لئے فارورڈ بلاک کی دو خواتین ارکان اسمبلی کو بھی وزیر کے منصب پر فائز کردیا ہے جس کے بعد فارورڈ بلاک کے تمام 23 اراکین ایڈجسٹ ہو گئے ہیں۔
اس فیصلے کے بعد بظاہر وزیراعظم اور حکومت کے سر پر جو تبدیلی کے سیاہ بادل منڈلارہے تھے وہ چھٹ گئے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ چوہدری انوار الحق اس فضا کو تادیر اپنے حق میں برقرار رکھنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔