فوجی عدالتوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر زیرحراست شخص کو لازمی سزا دی جائے گی اگرچہ جرم ثابت بھی نہ ہو ۔پھر بھی فوجی عدالتوں کیخلاف شور شرابہ کرنیکا مطلب یہ اعتراف لگتا ہے کہ یہ لوگ واقعی مذکورہ واقعات میں ملوث ہیں۔اور سول قانون میں گنجائش اور مختلف سسٹم سےفائدہ اٹھاکر بچ نکلنا چاہتے ہیں۔
شہدا کے ورثا نے اس امید کا اظہار کیا کہ ان کوفوجی عدالتوں سے فوری انصاف ملے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ جاسوسی نیٹ ورک اور ملک دشمن قوتوں سے نمٹنے کیلئے قیام پاکستان سے ہی ایک موثر ہتھیار اور کردار کا حامل رہا ہے۔ اس لئے ملکی سلامتی کے پیش نظر اس کو بحال کیا جائے۔
شہدا کے ورثا کا حق ہے کہ ان کو جس عدالت سے خواہ سول ہو یا فوجی ، فوری انصاف ملے۔ ان کے پیاروں کے مقدمات اسی عدالت میں چلائے جائیں اور ملوث فرد یا افرادکو قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ دیگر قانونی نکات کے ساتھ شہدا کے ورثا کی تسلی واطمینان کو بھی ضرور مد نظر رکھ کر فیصلہ دے گی۔ شہدا فورم بلوچستان کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں پٹیشن بھی دائر کردی گئی جس کا عندیہ فورم نے پریس کانفرنس کے دوران دیاتھا۔
شہدا فورم کے پیٹرن انچیف نوابزادہ جمال رئیسانی کی جانب سے دائرپٹیشن میں کہا گیا ہے کہ9مئی کے واقعات کے بعد شہدا کے لواحقین میں شدیدغم وغصہ پایاجاتا ہے۔پٹیشن میں شہدا فورم نے فوجی عدالتوں کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ اور کہاگیا ہے کہ گزشتہ برسوں سے لے کر آج تک مسلح افواج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بے رحمی سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج کے ہزاروں جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں شہریوں کا بھی جانی نقصان ہوا ہے۔ شہدا اور زخمیوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔پٹیشن میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں کوکا لعدم قرار دینے کافیصلہ زمینی حقائق اور صورتحال کو مد نظر رکھنے میں ناکام رہا ہے۔ پٹیشن کے مطابق سپریم کورٹ کے جس معزز پانچ رکنی بنچ نے یہ فیصلہ سنایا وہ اپیل میں نہیں بیٹھ سکتا۔ اور سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ بڑے بنچوں کی طرف سے کئے گئے فیصلوں پر نظر ثانی نہیں کرسکتا، پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کے طریقہ کار کو وفاقی شرعی عدالت نے بھی اسلامی اقدار اور بنیادی حقوق سے ہم آہنگ قرار دیا ہے۔
دوسری طرف نگران وفاقی حکومت، وزارت دفاع ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے بھی فوجی عدالتوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کردی ہیں۔ سینٹ آف پاکستان نے بھی فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں قرارداد منظور کی ہے۔ ان اپیلوں میں جوموقف اختیار کئے گئے ہیں ان کے مطابق فوجی عدالتوں کے بارے میں بنایا گیا پانچ رکنی بنچ قانون کے مطابق نہیں تھا۔
حکومت 9مئی کے واقعات میں قید تمام افراد کے مقدمات فوجی عدالتوں کو بھیجنا چاہتی ہے۔ فوجی عدالتیں صرف ان افراد کے مقدمات کی سماعت کریں گی جو فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے میں ملوث تھے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ناقابل سماعت درخواستوں پر فیصلہ دیا ہے۔ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات کالعدم ہونے سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ چونکہ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے اس لئے اس پر کوئی تجزیہ یا تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہم نے صرف ان اپیلوں کے متن کی مختصر تفصیل پیش کی ہے۔
فیصلےکا اختیار تو عدالت کو حاصل ہے کہ وہ اس بارے میں قانون کے مطابق جو مناسب سمجھے فیصلہ دے۔ عوامی رائے یہ ہے کہ اگر شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی او رفوجی تنصیبات پر حملے کرنے اور ان کو نقصان پہنچانے والے سویلنیز کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات نہیں چلائےجا سکیں گے تو دیگر دہشت گردوں اور پاکستان کے خلاف جاسوسی کرنے والوں کا کیا ہوگا۔ 9مئی کے واقعات ریاست پر حملے اور دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہیں۔ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ فوجی عدالتوں سے تکلیف کسے ہورہی ہے۔