سوال یہ ہے کہ ملک کو معاشی دلدل میں پھنسانے کا ذمہ دار کون ہے؟
اس سوال کا ایک آسان اور سادہ جواب یہ ہے کہ من حیث القوم ہم سبھی اس کے ذمہ دار ہیں ہم سب نے ملکر اس ملک کو بد ترین معاشی بحران سے دوچار کیا ہے اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ غیر ملکی قرض حاصل کر لینا ہی ایک کامیاب معاشی پالیسی کا ثبوت اور دلیل بن کر رہ گیا ہے۔ تباہ حال بڑے بڑے قومی اداروں کو اسکریپ کے طور پر اونے پونے داموں فروخت کرنے کے عمل کو نجکاری کا نام دے کر ڈھول پیٹتے ہوئے کریڈٹ لیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس جانب کیوں نہیں سوچا جاتا کہ آخر ہم اس معاشی بد حالی کی دلدل میں کیونکر پھنسے ہیں اور یہ کہ اس سے نکلنے کی کیا تدبیریں ہیں۔ قرضے لے کر ملک چلانا کون سی دانشمندی ہے اور جب گھر تباہ و برباد ہو جائے تو گھر کی قیمتی اشیاء کو فروخت کرکے گزارا کرنا کون سی عقلمندی ہے۔ اس ملک کی معاشی تباہی کی طویل داستان کا ہر باب اس قدر سنگین اور خوف ناک ہے کہ دل دہل جاتا ہے۔ انگریز صاحب بہادر نے یہاں سے جاتے وقت کم و بیش بائیس ہزار افراد میں جاگیریں تقسیم کی تھیں اور آج وہی خاندان اس ملک کے وسائل پر قابض اور سیاہ و سفید کے بلاشرکت غیرے مالک چلے آرہے ہیں ۔کیا کوئی عوام کو یہ بتانا پسند کرے گا کہ ماضی میں کن کن شرفاء نے کتنے قرضے اور کس عوض معاف کرائے ہیں ؟
سرکاری اداروں کی تباہی کی ایک بڑی وجہ میرٹ سے ہٹ کر بھرتیاں ہے ۔اگر کسی دفتر میں ایک ملازم کی ضرورت ہو وہاں پچا س افراد بھرتی کر دیے جائیں تو اس ادارے کا تباہ ہو جانا بنتا ہے کچھ ایسا ہی ہمارے سرکاری اداروں میں بھی ہوا ہے درجنوں غیر ضروری سرکاری ادارے نظر آتے ہیں جن کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی ان کی کوئی کارکردگی ہے سیاسی اشیر باد کی بنا پر احساسِ تحفظ اور عدم احتسابی نے سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ پرائیویٹ ادارے تو کامیا بی سے چلتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں مگر سرکاری ادارے ہمیشہ خسارے میں ہی نظر آتے ہیں کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ وہ تمام ادارے جن کے سربراہوں کی تنخواہ پچاس ساٹھ لاکھ روپے ہے، وہ سب کے سب خسارے میں چل رہے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سرکا ری ادارے کا کوئی physicalوالی وارث نہیں ہوتا۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود زرعی اجناس اور اشیائے خوردونوش کی قلت اور ان کی امپورٹ کا عمل حد درجہ باعث تکلیف و افسوس ہے۔ زرعی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار نے برے طریقے سے زراعت کے شعبے کو گزند پہنچائی ہے جبکہ دوسری جانب دنیا ریگستانوں میں زراعت کو فروغ دے رہی ہے۔ ہماری ایکسپورٹس میں بتدریج کمی اور امپورٹس میں اضافہ ہو رہا ہے لوکل انڈسٹری کو تحفظ دینے کے لیے انقلابی اقدامات اٹھائے جانے کی ضرورت ہے۔
پیٹ پر پتھر باندھنے کی گھنٹی بج چکی ہے یہ ملک ہم سے اپنا حق مانگ رہا ہے اس ملک کا حق ہے اس پر رحم کیا جائے اب معیشت کی بحالی کے لیے کھوکھلے اور روایتی نعرے ،وعدے اور دعوے نہیں چلیں گے۔ قوم اب عملی اقدامات ہوتے دیکھنا چاہتی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معیشت کی بحالی کے لیے ایک میثاق پر متفق ہو جائیں اور عہد کریں کہ وہ اپنے سیاسی مفادات کو ملکی مفاد پر قربان کریں گی۔