مولانا حالی اپنی مسدس میں فرمایا
کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا
مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں
کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں
سبب یا علامت گر ان کو سمجھائیں
تو تشخیص میں سو نکالیں خطائیں
دوا اور پرہیز سے جی چرائیں
یونہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں
طبیبوں سے ہرگز نہ مانوس ہوں وہ
یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آ کے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دور اور طوفاں بپا ہے
گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی
پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی
گھٹا سر پہ ادبار کی چھا رہی ہے
فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس و پیش منڈلا رہی ہے
چپ و راست سے یہ صدا آ رہی ہے
کہ کل کون تھے آج کیا ہو گئے تم
ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم
پر اس قومِ غافل کی غفلت وہی ہے
تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں پر رعونت وہی ہے
ہوئی صبح اور خوابِ راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ
نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ
حالی سرسید کے مقلد اور مغرب سے مرعوب تھے۔ چناں چہ انہیں مسلمانوں میں کوئی قابل قدر چیز نظر نہیں آتی تھی۔ مگر اقبال تک آتے آتے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک شعوری تبدیلی آگئی تھی۔ اقبال کو اسلام اور مسلمانوں کے عروج کا پورا یقین تھا۔ ان کی ایک نظم جو 1907ء میں لکھی گئی اس امر کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اس نظم میں اقبال ایک سرشاری کے عالم میں کہہ رہے تھے۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
کبھی جو آوارئہ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا
سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
دیارِ مغرب کے رہنے والوں خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
سفینۂ برگِ گُل بنا لے گا قافلہ مورِ ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا
اقبال کے شعور میں اتنی جان تھی کہ انہوں نے عہد غلامی میں آزادی کا خواب دیکھا اور برصغیر میں مسلمانوں کی ایک جداگانہ ریاست کا تصور پیش کیا۔ اقبال قیام پاکستان تک زندہ نہ رہے اور نہ انہوں نے عالم اسلام سے مغربی طاقتوں کی پسپائی کا منظر دیکھا لیکن دو عالمی جنگوں نے مغربی طاقتوں کے کس بل نکال دیے اور وہ اپنے مقبوضہ علاقوں پر تسلط جاری رکھنے کے قابل نہ رہیں۔ لیکن یہاں سے مسلمانوں کی ایک نئی مشکل سامنے آئی۔ مسلم اقوام بظاہر آزاد ہوگئیں مگر بدقسمتی سے ہر جگہ ایسے حکمران اقتدار میں آگئے جو مغرب کے آلہ کار تھے۔ چناں چہ آزادی کی چھے اور سات دہائیوں کے بعد بھی مسلم دنیا کا یہ حال ہے کہ مسلم دنیا کے بادشاہ مغرب کے غلام ہیں۔ مسلم دنیا کے جرنیل مغرب کے آلۂ کار ہیں۔ مسلم دنیا کے سیاست دان مغرب کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پورا عالم اسلام مغرب کی جیب میں پڑا ہوا ہے۔ مسلمان معاشروں اور ریاستوں کا یہ حال ہے کہ ان کا سیاسی نظام مغرب سے آیا ہوا ہے۔ ان کا معاشی نظام مغرب کی عطا ہے۔ مسلم دنیا کے قوانین مغربی قوانین کا چربہ ہیں۔ مسلم دنیا مغربی علوم و فنون پڑھ رہی ہے۔ مسلم دنیا مغرب کی فلمیں دیکھ رہی ہے۔ مغرب کی موسیقی سے لطف اندوز ہورہی ہے مسلمان مغرب کا لباس پہن رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مسلم دنیا مغرب کی غذائیں کھا رہی ہے۔ اس منظرنامے میں یہ سوال ایک خنجر کی طرح مسلمانوں کے دل میں پیوست ہوجاتا ہے کہ کیا امت مسلمہ کبھی عروج کی طرف جائے گی یا یہ غلامی اس کی دائمی غلامی ثابت ہوگی؟
قرآن و حدیث اور عقلی دلائل کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہمارے پاس اس سوال کا واضح جواب موجود ہے اور وہ یہ کہ امت مسلمہ آج نہیں تو کل اس قعر مذلت سے نکلے گی اور نہ صرف عروج کی طرف جائے گی بلکہ پوری دنیا کی قیادت کرے گی۔ اس کی سب سے بڑی نقلی دلیل قرآن مجید کی وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ اپنے نور کا اتمام کرکے رہے گا خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ محسوس ہو۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نور کا اتمام کافروں اور مشرکوں پر نہیں ہوگا بلکہ یہ مسلمانوں پر ہوگا اور جب ایسا ہوگا تو امت مسلمہ پوری دنیا کا محور بن کر ابھرے گی۔ بقول شاعر
کارِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
اسی سلسلے میں رسول اکرمؐ کی ایک حدیث پاک بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا میرا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کو منظور ہوگا اور اس کے بعد خلافت راشدہ ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا عہد رہے گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا دور رہے گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی۔ اس کے بعد زمانہ ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کی جانب لوٹے گا۔ چناں چہ جب رسول اکرمؐ نے فرما دیا کہ زمانہ ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کی جانب لوٹے گا تو ایسا ضرور ہوگا اور جب ایسا ہوگا تو یہ امت مسلمہ کے عروج کا آغاز ہوگا۔ اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہم اس وقت کاٹ کھانے والی آمریت کے عہد میں سانس لے رہے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خلافت علیٰ منہاج النبوہ کا دور دور نہیں بلکہ قریب ہے۔
یہ امت مسلمہ کے عروج کی طرف جانے کے دو بہت ہی بڑے نقلی دلائل تھے۔ اس سلسلے میں عقلی دلائل کی بھی کمی نہیں۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ دنیا کی 8 ارب آبادی میں سے تقریباً ڈھائی تین ارب آبادی توحید یا ایک خدا کے تصور تک سے محروم ہے۔ مغرب نے عقلی بنیادوں پر خدا کا انکار کیا۔ چین کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ ہے اور اس کا بڑا حصہ کسی خدا اور کسی مذہب کا قائل نہیں۔ دوسری طرف دنیا کی وہ اقوام ہیں جو خدا کو مانتی تو ہیں مگر انہوں نے خدا کے شریک ایجاد کرلیے ہیں۔ مثلاً ہندو ازم میں ایک خدا کا تصور موجود ہے۔ وید میں صاف لکھا ہوا ہے کہ خدا ایک ہے اور اس کی کوئی شبیہ نہیں بنائی جاسکتی۔ اس لیے کہ وہ وراء الوراء ہے۔ مگر ہندوئوں نے ایک سطح پر تین اور دوسری سطح پر33 کروڑ خدا ایجاد کر رکھے ہیں۔ عیسائیوں کی آبادی 2 ارب ہے مگر انہوں نے سیدنا عیسیٰؑ اور روح القدس کو خدا کی خدائی میں شریک کرکے شرک ایجاد کرلیا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کو اگر خدا اور ایک خدا کے عقیدے کی طرف لوٹنا ہے تو توحید کا تصور صرف مسلمانوں کے پاس ہے۔ توحید کا خزانہ اور توحید کا علم صرف مسلمان ہی دنیا کو مہیا کرسکتے ہیں۔