غزہ : جنگ بندی تعطل، امن کا مستقبل

غزہ جنگ میں عارضی وقفے سے متعلق امریکہ کا کہنا ہے کہ تنازع کا نتیجہ کیا نکلے گا کہنا مشکل ہے لیکن جنگ کے اختتام پر فلسطینی ریاست کا قیام دیکھنا چاہتے ہیں۔ وضع اصول کے تحت غزہ علاقے میںکمی نہیں ہونی چاہیئے۔ کسی فلسطینی کو غزہ سے بیدخل نہ کیا جائے۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ ایسی فلسطینی ریاست کا قیام جو مغربی کنارے اور غزہ کو متحد کرے، یہ وہ پالیسی ہے جسے امریکا سپورٹ کرتا اور حاصل کرنا چاہتا ہے۔

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے اپنی پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ کوشش ہے کہ غزہ میں کم سے کم جانی نقصان ہو۔ زیادہ انسانی امداد پہنچائی جا سکے۔ اسی حوالے سے روسی اخبار رشیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ میں اسرائیلی ذرائع ابلاغ کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت فوری طور پر حماس کے ساتھ تبادلے کے تحت رہا کیے جانے والے تقریباً ڈیڑھ سو فلسطینی قیدیوں کی فہرست جاری کرے گی جن کی رہائی کے خلاف اسرائیلی شہریوں کو اپیل کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ ان فلسطینی قیدیوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں جن میں سے کسی پر بھی اسرائیلیوں کے قتل کا الزام نہیں ہے۔ اسرائیلی عدالت عظمیٰ ان اپیلوں پر 24 گھنٹے کے اندر فیصلہ کرے گی اور اس کی طرف سے ان فلسطینی قیدیوں کی رہائی نہ روکنے کی صورت میں اسرائیلی حکومت اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔ مصر نے ایک بار پھر اسرائیل کے بارے میں اپنے اس خدشے کا بالواسطہ اظہار کیا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے مکمل بے دخل کر کے بے وطن کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ مصری وزارت خارجہ کے ترجمان نے جنوبی غزہ میں مسلسل کی جانے والی اسرائیلی بمباری کو موضوع بناتے ہوئے کہا کہ اس بمباری کا واضح اور صاف مطلب بے گھر ہو چکے فلسطینیوں کو نشانہ بنا کر غزہ کی پٹی سے ہی نکالنا ہے۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ مصر نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی ہر کوشش کو مسترد کرتا ہے۔

حماس کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 7 اکتوبر کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ کی پٹی پر جاری اسرائیلی بمباری میں 14128 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 5840 بچے اور 3920 خواتین شامل ہیں۔ بمباری کے نتیجے میں مزید 33 ہزار افراد زخمی بھی ہوئے۔ عارضی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ یقینا ایک خوش آئند پیش رفت ہے اور اس سے نہ صرف انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے میں مدد ملے گی بلکہ غزہ میں زخمی اور جنگ سے متاثر دیگر افراد تک امداد پہنچانے کا سلسلہ بھی بہتر بنایا جاسکے گا لیکن یہ سب کچھ اس مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے جو اب سے پون صدی پہلے پیدا ہوا تھا۔

امریکہ اور برطانیہ سمیت زیادہ تر مغربی ممالک غاصب صہیونی ریاست کے ہاتھ مضبوط کر کے اس مسئلے کو طول دے رہے ہیں جس سے بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کا امن و امان مسلسل خطرات کا شکار ہے۔ اقوامِ متحدہ ان ممالک کے ہاتھوں خود یرغمال بنا ہوا ہے اس لیے وہ اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔ اس صورتحال میں روس اور چین جیسے ملکوں کو آگے بڑھ کر اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ یہ تقاضا مسلم ممالک سے بھی کیا جاسکتا تھا لیکن ڈیڑھ مہینے تک جاری رہنے والی اسرائیلی درندگی پر مسلم ممالک کے ردعمل نے یہ ثابت کیا کہ وہ محض زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔