انتخابی مہمات اُور مشکلات

عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم اور عوامی رابطوں میں تیزی آئی ہے تو وہیں 2018 کے عام انتخابات میں اقتدار حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو جلسے یا کنوینشن کی اجازت ملنا ہی مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اگر نظر ڈالیں تو ایک جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری چترال، دیر بالا اور ایبٹ آباد سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں اپنی انتخابی سرگرمیوں میں مشغول نظر آ رہے ہیں۔

دوسرے منظر میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور شہباز شریف صوبہ بلوچستان سمیت مختلف علاقوں میں پارٹی تنظیم سازی اور رابطوں میں مصروف ہیں۔

ایسے میں 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم پر نظر ڈالیں تو انھیں جلسے جلوس سمیت عوامی اجتماعات کی اجازت ملتی دکھائی نہیں دے رہی بلکہ ایسا کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاون کیا جانا بھی معمول ہے۔

اس کی حالیہ مثال گزشتہ دو روز کے دوران خیبرپختونخوا کے علاقے دیر بالا اور کرک میں ہونے والے پی ٹی آئی کے جلسوں میں دیکھی گئی۔

آخر ملک کے نگران وزیر اعظم کے اعلان کے باوجود دیگر جماعتوں کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی مہم کے لیے مشکلات کا سامنا کیوں ہے۔ ہم نے اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔

صاف نظر آ رہا ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کے خلاف کیسز ہیں اور اس کے باعث ان تمام معاملات کا تانا بابا موجود ہے اور انھیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی اُور عام انتخابات تک اس صورتحال میں تبدیلی آتی نظر بھی نہیں آ رہی۔

اس وقت تحریک انصاف کو چاہیئے کہ پیشرفت کے لیے ایسے صلح پسند لوگوں کو درمیان میں لائے جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے کر کے صلح صفائی کے مواقع مہیا کروا سکیں۔‘

ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اس کی مثال بے نظیر کے دور میں دیکھیں جب ایسی ہی رکاوٹوں پر وہ مخدوم امین فہیم کو درمیان میں لائیں اور یہی کردار نواز شریف کے لیے راجا ظفر الحق نے ادا کیا تھا۔ ایسی حکمت عملی اپنانے سے ہی تحریک انصاف کا راستہ کھل سکے گا۔

مساوی مواقع نہ ملنے سے عام انتخابات کی شفافیت پر یقینا سوالات اُٹھیں گے اور اگر پی ٹی آئی کو انتخابی مہم کی اجازت نہیں ملی اور ان کے خلاف کریک ڈاون ختم نہ ہوئے تو انتخابات کا ماحول بن نہیں پائے گا اور اس کے بغیر بات نہیں بنے گی۔

عمران خان کی مقبولیت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’بلاشبہ عمران خان مقبول تو ہیں لیکن 2018 میں اتنے ہی مقبول اس وقت نواز شریف بھی تھے۔ بہرحال دیکھتے ہیں کہ کس طرح ووٹرز کو مقبولیت کے تناظر میں راغب کیا جائے۔