پاکستان میں سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹیڈیز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں شدت پسندی کے واقعات میں مسلسل اور تشویشناک حد تک اضافہ ہوا۔
حکام کی جانب سے ان واقعات کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر شدت پسند تنظیموں پر عائد کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں تاہم نہ صرف افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت بلکہ ماضی کی حکومتیں بھی ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتی رہی ہیں۔
پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے اور کیا پاکستان دوبارہ سے شدت پسندی کے سابقہ دور کی جانب بڑھ رہا ہے؟
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق رواں سال ستمبر کے مہینے تک پاکستان میں شدت پسندی کے 450 سے زائد واقعات رونما ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق رواں سال کی دوسری سہ ماہی میں شدت پسندی کے واقعات میں 284 ہلاکتیں ہوئیں۔ سال کی تیسری سہہ ماہی میں ان کی تعداد بڑھ کر 445 ہو گئی اور اس طرح تین ماہ میں ان واقعات میں 57 فیصد اضافہ ہو گیا۔
رپورٹ کے مطابق ستمبر تک ہونے والے واقعات میں 386 سکیورٹی اہلکار مارے گئے، 333 عام شہری جان کی بازی ہار گئے جبکہ 368 شدت پسند بھی ہلاک ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے ان میں سے سب سے زیادہ ہلاکتیں خیبرپختونخوا اور دوسرے نمبر پر بلوچستان میں ہوئیں جبکہ سندھ ، پنجاب اور اسلام آباد میں یہ تعداد نسبتاً کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق دونوں صوبوں میں شدت پسندی کے واقعات کے رحجان میں گزشتہ پانچ سال میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور سنہ 2022 کے مقابلے میں اس سال ایسے واقعات میں ہونے والی اموات کی تعداد 19 فیصد زیادہ ہے۔
2016 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں شدت پسندی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ نقصان سکیورٹی فورسز کا ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان واپس اس دور کی طرف جا رہا ہے، جب شدت پسندی کے زیادہ واقعات رونما ہو رہے تھے۔
چترال سمیت خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں تحریک طالبان اور بعض دیگر شدت پسند تنظیموں کے حملوں کے بعد پاکستان میں سرکاری حکام نے ایک مرتبہ پھر افغانستان کو مورد الزام ٹھرانا شروع کیا۔
نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے یہ کہا تھا کہ افغانستان یہ جانتا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کہاں ہے۔
بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ افغانستان میں پاکستان دشمن سرگرمیوں کے منصوبوں، وہاں پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کی مکمل ڈوزِیئر افغان حکومت کو فراہم کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک ہمسایہ ملک کی حیثیت سے افغانستان کو اس کا مثبت جواب دیتے ہوئے مطلوب دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنا چاہیے تھا لیکن تاحال افغان حکومت کی جانب سے اس کا مثبت جواب نہیں دیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی بجائے افغانستان میں موجود شرپسند عناصر نے جلتی پر تیل ڈالنے کا منصوبہ بنایا تاکہ پاکستان میں حساس نوعیت کے معاملات میں دہشت گردی کا الزام پاکستانی اداروں پر لگایا جا سکے۔‘
نگراں وزیر اطلاعات نے یہ بھی کہا کہ پاکستان دنیا بھر میں دہشتگردی کی مذمت کرتا ہے۔
’ہمارے بھائی چارے کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ہم نے کسی کی بالادستی اور جارحیت کو کبھی قبول نہیں کیا۔‘