دیوار کا بھی دھڑکا کچھ ہوش کھو رہا ہے

ایٹمی پروگرام میں کامیابی کی طرح ہی اگر ہم وطن عزیز کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے اور معیشت میں خود کفیل ہونے کو اپنی ترجیح اوّل بنا کر اس کے لیے اپنا تن، من، دھن وقف کردیتے تو آج معاشی مسائل یوں بحرانی نہ ہوتے اور نہ ہی عوام مصائب کی اس دلدل میں گرفتار ہوتے جس سے نکلنا بظاہر بے حد مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

انفرادی طور پر بھی یہی دیکھا گیا ہے کہ ہم بروقت قوت فیصلہ نہ ہونے کی بنا پر ترجیح کا تعین کرنے میں ناکم رہتے ہیں جس کی وجہ سے ہم بعدازاں نہ صرف مالی طور پر نقصان سے دوچار ہوتے ہیں بلکہ ہمیں ذہنی اذیت سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ خود راقم الحروف بھی اس حوالے سے بارہا پریشان اور نقصان سے گزرتا رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ہم عجلت اور جذبات میں فیصلہ کرنے کے بجائے ٹھنڈے دل اور دماغ کے ساتھ اپنی ترجیحات کو پیش نظر رکھتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا ڈھنگ سیکھ لیں تو نہ صرف ذہنی پریشانیوں بلکہ مالی طور پر بھی زیر بار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ انسان اپنے اور دوسروں کے تجربات سے بھی اس حوالے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے تا کہ آئندہ کسی نقصان یا پریشانی کا اسے سامنا کرنا نہ پڑے۔

 سود اور سودی نظام سے جان بوجھ کر تعلق استوار کرنے والا بھی سکون اور اطمینان سے رہ سکتا ہے؟

ظاہر ہے قطعی نہیں! ہرگز نہیں۔