بجلی صارفین سے اربوں روپے کی اوور بلنگ کے بڑے اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے جہاں پاور ڈویژن کا دعویٰ ہے کہ بجلی کی کل پیداوار 48,000 میگاواٹ ہے جبکہ اس کی ترسیل 26,000 میگاواٹ سے زیادہ نہیں ہے لیکن اس نے صارفین کا لوڈ 175,247 میگاواٹ ظاہر کیا ہے اور ان سے دھوکہ دہی سے بھاری رقوم وصول کی ہیں۔ بوگس بلنگ، مبالغہ آرائی اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر لوڈ شیڈنگ جس کے نتیجے میں قوم پر کھربوں روپے کے گردشی قرضے ہیں اسی طرح کراچی میں کے الیکٹرک کی ریکارڈ پیداواری صلاحیت 3,555 میگاواٹ ہے جبکہ صارفین تک اس کی ترسیل صرف 2200 میگاواٹ ہے لیکن اس نے صارفین کو 15,241 میگاواٹ پر حقیقی تقسیم کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس لیے کراچی اور دوسرے شہروں کے صارفین روزانہ چھے سے بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں لیکن اس مافیا کی جانب سے مختلف سروں پر ہر ماہ جعلی بلنگ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سب سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اوپر بتائی گئی 3,555 میگاواٹ کی صلاحیت کے دعوے میں سے K-E کی اپنی خالص پیداواری صلاحیت صرف 1,875 میگاواٹ ہے جبکہ باقی 1,680 میگاواٹ آئی پی پیز اور دیگر بیرونی ذرائع سے خریدی جا رہی ہے۔ یہ سب سے سنگین جرم ہے کہ اس نے پورے شہر میں تانبے کی تاریں ہٹا دی ہیں اور ان کی جگہ خراب ایلومینیم کنڈکٹر کیبلز لگا دی ہیں۔
اگست میں تقسیم کار کمپنیوں نے بجلی صارفین سے اربوں روپے زائد کے بل وصول کیے۔ نیپرا نے اگست میں اوور بلنگ کے معاملے پر نوٹس اور انکوائری کا فیصلہ کیا تھا۔ انکوائری رپورٹ میں اگست کے بلوں میں اوور بلنگ ثابت ہوگئی۔ اربوں روپے کی اوور بلنگ میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں ملوث پائی گئیں۔ تمام تقسیم کار کمپنیوں نے غریب عوام کو اور بلنگ کے ذریعے لوٹا۔ نیپرا ذرائع کے مطابق لیسکو اور حسیکو ریجن میں سب سے زیادہ اوور بلنگ ہوئی۔ ڈسکوز کی جانب سے پروٹیکٹڈ صارفین سے نان پروٹیکٹیڈ والے بل وصول کیے گئے اور اوور بلنگ کے لیے ریڈنگ میں تاخیر کا حربہ استعمال کیا گیا۔ ریڈنگ میں تاخیر کر کے پروٹیکٹڈ صارفین کو نان پروٹیکٹڈ میں شامل کیا گیا اور مقررہ تاریخ کے بجائے جان بوجھ کر 3 سے 4 دن تاخیر سے ریڈنگ لی گئی۔ لیسکو اور حیسکو کے علاوہ دیگر ڈسکوز میں بھی اوور بلنگ ہوئی۔ نان پروٹیکٹڈ صارفین سے بھی اور بلنگ کی گئی۔ ڈسکوز کی جانب سے میٹر تبدیلی کے نام پر بھی اضافی وصولیاں کی گئیں۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے ڈسکوز کی اوور بلنگ سے متعلق رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ واضح رہے کہ نیپرا نے ماہ ستمبر میں ڈسکوز کی جانب سے اوور بلنگ کے معاملے کا نوٹس لیا تھا۔ نیپرا کو بڑی تعداد میں صارفین سے اوور بلنگ کی شکایات موصول ہوئی تھیں۔ ذرائع کے مطابق اتھارٹی نے معاملے پر انکوائری کمیٹی تشکیل دی، جس نے رپورٹ رواں ہفتے مکمل کی ہے۔
عوام کا المیہ یہ ہے کہ مہنگائی کے طوفان میں وہ اس طرح سے بے دست و پا ہیں کہ حکومت اور اس کے ادارے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بجائے مزید لوٹ مار کرنے اور ان کی جیب کاٹنے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ حکومت نے اپنے خسارے پورے کرنے اور آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کرنے کی خاطر پٹرول اور بجلی کو ہدف بنارکھا ہے، پٹرول اپنی قیمت سے کم از کم بھی نصف دو گنا زیادہ قیمت پر فروخت ہورہا ہے، بجلی پر کتنی قسم کے ٹیکس ہیں، انہیں شمار کرنا بھی ممکن نہیں۔ اس کے باوجود ڈسکوز نے غیر اخلاقی، غیر قانونی حرکت کرتے ہوئے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا اور نا جائز طور پر اضافہ بل وصول کیے، جسے دھوکہ اور فراڈ کے سوا کوئی دوسرا نام دینا ممکن نہیں ہے۔ جرم نیپرا کی تحقیقات میں ثابت ہو چکا ہے، اب صرف تحقیقاتی رپورٹ شائع کر دینا کوئی سزا نہیں ہے، لازم ہے کہ پہلے مرحلہ میں فوری طور پر عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس کیا جائے اور حکومت اس مجرمانہ حرکت کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے ان کے خلاف مجرمانہ اقدامات کے مقدمات درج کرکے، گرفتار کیا جائے۔ حکومت اگر کوئی ایکشن نہیں لیتی تو لازم ہے کہ عدالت عظمیٰ از خود نوٹس کے تحت کاروائی کرے تا کہ ان مجرموں کو قرار واقعی سزادی جائے۔ ایک طرف آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں۔ اسلام آباد میں سرکاری دفاتر اور رہائش گاہوں کو سالانہ 10 ارب روپے کی مفت بجلی فراہم ہوتی ہے۔ غریب لا چار مفلس اور دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے دردر ٹھوکریں کھانے والے عوام کے ساتھ یہ بھونڈا مذاق نہیں تو اور کیا ہے کہ ماہانہ بیس پچیس ہزار روپے تنخواہ لینے والے افراد پر تو بھاری ٹیکس ڈال کر ان سے بجلی اور گیس کے بلوں کی مد میں بھاری رقوم وصول کی جاری ہیں جبکہ بیورو کریسی کو دس ارب روپے کی سالانہ مفت بجلی کی سہولت میسر ہے، بھاری سودی قرضوں میں ڈوبے ہوئے ملک کے ساتھ یہ صریحاً زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔
مملکت خداداد میں ایسا لگتا ہے کہ عوام کے سر پر تو ذخیرہ اندوزوں، بلیک میلروں اور کالی بھیڑوں کو مسلط کردیا گیا ہے جبکہ ملک کے ایک خاص طبقہ نے سہولتوں اور مراعات کو صرف اپنا حق سمجھ رکھا ہے۔