قانون کوئی بھی بنالیں، جب تک ضابطۂ قانون حسبِ سابق ہے تو قانون بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، ہمارے ہاں ایک ضابطۂ فوجداری ہے اور ایک ضابطۂ دیوانی ہے، انہیں ہم مخفف کر کے بالترتیب سی آر پی سی اور سی پی سی کہتے ہیں، یہ قانونی ضوابط دراصل سانپ سیڑھی کا کھیل ہے اور کروڑوں روپے فیسیں لینے والے نامی گرامی وکلا اس سرکس کے مداری ہوتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں: ایک مقدمہ چلتے چلتے ایسے مرحلے پر آتا ہے جب محسوس ہوتا ہے کہ چند دنوں میں فیصلہ آنے والا ہے کہ اچانک وہ ننانوے کے عدد پر سانپ کے منہ میں داخل ہو کر زیرو پر آجاتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، منطق کی اصطلاح میں اسی کو ’’تسلسل‘‘ یا ’’دَور‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ ماتحت عدالتوں کو چلنے ہی نہیں دیتیں، آئے دن سماعت موقوف کردی جاتی ہے، حکمِ امتناع جاری ہوجاتا ہے، ساری کارروائی کالعدم ہوجاتی ہے اور پھر نئے سرے سے شروع ہوتی ہے، اسی میں عمریں بیت جاتی ہیں اور لوگ تھک ہار کر عدالتوں کا رخ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
مغرب میں عدالتیں مقدمات کا فیصلہ کرنے سے پہلے اس بات کو ترجیح دیتی ہیں کہ فریقینِ مقدمہ عدالت سے باہر ہی اپنے معاملات طے کرلیں اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے، اس کو ثالثی کہتے ہیں۔ ماہر وکلا کا کام لفظوں سے کھیلنا ہوتا ہے، ایسی ہی صورتِ حال کی بابت رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’میں بشر ہوں اور تم میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو اور شاید تم میں سے ایک فریق دوسرے کے مقابلے میں حجت بازی میں زیادہ ماہر ہو اور میں اس کے دلائل سن کر اس کے حق میں فیصلہ دیدوں، تو میں نے اُس کے بھائی کے حق میں سے جس چیز کا اُس کے حق میں فیصلہ دیا ہے (اگر وہ درحقیقت اس کی نہیں ہے) تو وہ اُس چیز کو نہ لے، بلکہ (وہ سمجھ لے) کہ میں اُسے جہنم کی آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں‘‘۔ (بخاری) رسول اللہؐ کو تو اللہ تعالیٰ اشیاء اور معاملات کی حقیقت پر مطلع فرماتا تھا، یہ بات آپؐ نے تعلیمِ امت کے لیے ارشاد فرمائی کہ حجت بازی، مکرو فریب اور حیلے سے دوسرے کا حق لینا جائز نہیں ہے اور آخرت میں اس کی جواب دہی ہوگی۔ انھی قانونی ضوابط کا شاخسانہ ہے کہ ہمارا نظام فرسودہ ہے، جائدادوں پر ناجائز قبضے ہوتے ہیں اور انہیں قانون اور عدالت کی مدد سے چھڑانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے، غالب نے کہا ہے:
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کَن اسدؔ
سرگشتۂِ خمارِ رسوم و قیود تھا
یہاں ’’خمارِ رسوم وقیود‘‘ سے مراد آپ اپنے وطن عزیز کا ضابطۂ دیوانی اور ضابطۂ فوجداری لے سکتے ہیں۔ لیکن کبھی چرب زبانی اور حجت بازی الٹی پڑ جاتی ہے، اس کی بابت فارسی کا محاورہ ہے: ’’عدُوّ شَرّے برانگیزدکہ خیر مادراں باشد‘‘، یعنی ’’دشمن شر برپا کرتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اُسی کے اندر سے ہمارے لیے خیر کی صورت مقدر فرمادیتا ہے‘‘۔ اس کی مثال پی ٹی آئی چیئرمین کا سائفر کیس ہے کہ اُن کے وکلا نے ہائی کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل دائرکی اور بعض قانونی نکات کا سہارا لے کر مقدمے کی ساری کارروائی کو کالعدم قرار دلوا دیا، اب یقینا از سرِ نو اس کا آغاز ہوگا۔ البتہ ہائی کورٹ نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے ٹرائل کے لیے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کے تقرر اور کھلی سماعت کے تقاضے پورے کرنے پر جیل کے اندر سماعت کو بھی جائز قرار دیا ہے۔ اس پر عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس سردار طارق مسعود نے پی ٹی آئی کے وکلا سے کہا: ’’آپ لوگوں نے جس فنّی سقم کی بنیاد پر ہائی کورٹ سے ماتحت عدالت کی کاروائی کو کالعدم قرار دلوایا ہے، اس سے پراسیکیوشن ہی کو فائدہ ہوا، کیونکہ اگر آپ اس وقت یہ سوال نہ اٹھاتے تو اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے مرحلے پر اسے اپنے حق میں استعمال کرسکتے تھے، لیکن اب پراسیکیوشن نئے سرے سے انتہائی محتاط ہوکر اور پھونک پھونک کر قدم رکھے گا اور مقدمے کو قانونی ضوابط اور فنی پیچیدگیوں کے مطابق چلائے گا، پھر اس میں قابلِ گرفت چیزیں نہیں ملیں گی، ثاقب عظیم آبادی نے کہا ہے:
اے روشنیِ طبع، تو بر من بلا شدی
ذلّت نصیب ہوتی ہے، شہرت کبھی کبھی
مفہومی ترجمہ: ’’شاعر اپنی غیر معمولی ذہانت کو مخاطَب کر کے کہتا ہے: تو میرے لیے مصیبت بن گئی ہے، تیرے سبب مجھے شہرت تو کبھی کبھی ملتی ہے، البتہ میرے حصے میں ذلّت زیادہ آتی ہے‘‘۔