امریکہ کے وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر ایک سوسال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ جرمن نژاد یہودی ہنری کسنجر کو ہولو کاسٹ میں بچ جانے والوں میں شمار کیے جاتا تھا اور شاید وہ اس دور کی آخری نشانی تھے جب ہٹلر نے یہودیوں پر تباہی اور موت برپا کی تھی اور یہ تنازع آج بھی یادوں میں محفوظ، خاموش تاریخ اور زندہ بولنے والے انسانی مکالموں کا موضوع ہے۔ ہنری کسنجر امریکی صدر فورڈ اور رچرڈ نکسن کے ادوار میں اس عہدے پر متمکن رہے، وہ سرد جنگ کا عروج کا زمانہ تھا اور امریکا اور سوویت یونین کرہ ارض کے مختلف حصوں میں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے نظر آرہے تھے۔ کہیں یہ کیفیت پراکسی جنگوں کی صورت باقاعدہ تصادم اور کشمکش کی صورت میں بھی ڈھل جاتی مگر دونوں طاقتیں اس کشمکش اور کشتی کے لیے دوسرے ملکوں کی زمین استعمال کرتے اس طرح اصل تباہی اور بربادی بھی وہیں برپا ہوتی جو ان جنگوں کے مرکز ہوتے۔ دونوں ملکوں کے فقط وسائل اس لڑائی میں کام آتے تھے اور وسائل کا بڑا حصہ بھی مقامی اکھاڑوں سے ہی اکٹھا کیا جاتا۔ ہنری کسنجر اس دور میں وزیر خارجہ رہے جب امریکا اور سوویت یونین کے درمیان براہ راست اور بالواسطہ پنجہ آزمائی ہوئی۔ امریکا نے جنگیں چھیڑ کر کئی ملکوں کے اقتدار اعلیٰ کو تاراج کیا جن میں لاکھوں انسانوں کا خون پانی کی طرح بہہ گیا شاید اسی لیے ہنری کسنجر کی موت پر کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے پیچھے ایک خون آلود ورثہ چھوڑ کر چلے گئے۔
ہنری کسنجر کا دور پاکستان کے لیے بہت سے حوالوں سے ہنگامہ خیز تھا بالخصوص وہ لمحات جب چوبیس برس کی مختصر مدت ہی میں پاکستان دو حصوں میں بٹ گیا۔
جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردارکے طور پر امریکا چاہتا تو پاکستانی حکمرانوں سے کہہ سکتا تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کے عوام کی اکثریت کا فیصلہ قبول کرلیں اور خون خرابہ روکنے کی کوشش کی جاتی اور اس وقت پاکستان ایک ایسی ریاست تھی جو اپنے پیروں پر ابھی کھڑا بھی نہیں ہوا تھا اور اس کی آبادیوں میں ابھی قومی یک جہتی کا پودا ابھی پوری طرح برگ وبار بھی نہیں لا سکا تھا ایسے میں صرف طاقت کا استعمال اور عوامی رائے کے مخالف کھڑا ہونے کا نتیجہ وہی نکلنا تھا جو سقوط ڈھاکہ کی صورت میں نمودار ہوا۔ گویا کہ امریکا نے طے کر لیا تھا کہ چین اور سوویت یونین کے خلاف اس کے لیے مغربی پاکستان ہی کافی اور مناسب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکا کا ساتواں بحری بیڑہ کہیں سمندروں میں کھڑا نہ رہتا اور امریکا پاکستان کو بچانے کے لیے ٹھوس مداخلت کرگزرتا۔ بعد میں یہی ساتواں بحری بیڑہ ایک دھوکے کی علامت اور محاورے کے طور پر بولا جاتا رہا پاکستان میں امریکا سے فاصلے کے جذبات کو پیدا کرنے میں اس ساتویں بحری بیڑے نے بیج کا کام دیا جو اپنے مقام سے تو چل پڑا مگر منزل تک نہ پہنچ سکا۔
امریکا نے پاکستانی حکمرانوں اور بنگالی عوام کے درمیان لڑائی میں ایک فریق کا ساتھ تو دیا مگر جب مشرقی پاکستان میں بھارت کی مسلح مداخلت روکنے خلاف لڑائی کا دائرہ بڑھانے کا فیصلہ کن وقت آیا تو کسنجر کے امریکا نے پاکستان کو بیچ منجدھار کے لاکر چھوڑ دیا۔ اب کسنجرکی موت نے یہ ایک بار پھر پاکستان کی تاریخ کا یہ تاریک اور تلخ باب یاد دلایا ہے تو آج پاکستان میں حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں۔ پاکستان میں ڈیڑھ سال سے ایک ایسا بحران چل رہا ہے جو کئی بحرانوں کوجنم دیتا چلا جا رہا ہے۔ مثلاً یہ کہ انتخابات کا انعقاد ہی ٹالا جا رہا ہے اور اس کے لیے آئین سے باہر نکلنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی گئی۔ امریکا اس سسٹم اور عارضی انتظام اور اقدامات کی حمایت میں کھڑا نظر آتا ہے۔ ملک کی مقبول لہر کسی اور رخ چل رہی ہے۔ خیبر پختون خوا اور پنجاب کے عوامی مزاج میں پہلی بار یکسانیت پیدا ہو چکی ہے اور نوجوان نسل ریاست کے روایتی بیانیوں پر یقین نہیں کر رہی ہے۔
بیس تیس سال سے سیاست اور بیانیہ سازی کے سارے فریم اور روایتی انداز ناکارہ اور ناکام نظر آرہے ہیں کیونکہ اب لوگوں میں زیادہ آگہی آگئی ہے اور وہ اپنے حالات کا خود تجزیہ اور اپنے ملک کا دوسرے ملکوں سے تقابلی جائزہ لینے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ آج پاکستان کے حالات ہی لوگوں کا بیانیہ بنانے کو کافی ہیں۔ کوئی چلتی پھرتی انسان نما بیانیہ ساز فیکٹری اور مشین عوام کا بیانیہ بنانے یا بگاڑنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ مدتوں تک جن لوگوں کو میڈیا، موٹیویشن اور علم، مذہب کے میدان میں ایسے ہی وقتوں کے لیے تیار گیا گیا تھا انہیں بیانیہ تھما کر وقت کی مقبول لہروں کے مقابل لاکھڑا گیا تو متبادل بیانیہ تو بن نہیں سکا معاشرے میں تھوڑا اعتبار اور تھوڑا بھرم رکھنے والے یہ عظمت کے مینار ایک ایک کرکے زمیں بوس ہوتے چلے گئے۔