A peaceful life
پرامن زندگی : بقائے باہمی کا پیغام
بدھ مت کے بانی ’گوتم بدھ‘ کا جنم دن منانے کے لئے دنیا بھر میں تقریبات کا سلسلہ جاری ہے۔ گوتم نے دنیا کو امن کا پیغام دیا۔ گوتم کا تعلق ہمالیہ پہاڑی علاقے کے شاہی خاندان سے تھا جہاں اُن کی پرورش ’شہزادہ سدھارتھ‘ کے طور پر ہوئی لیکن ڈھائی ہزار سال قبل کی بات ہے کہ جب اُنہوں نے شاہی زندگی ترک کر کے زندگی کی ’تلخ حقیقتوں کو دریافت کرنے کے سفر کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے اپنی آبائی سرزمین چھوڑی اُور جب وہ طویل عرصے کی ریاضت کے بعد واپس آئے تو دنیا نے اُنہیں شہزادہ نہیں بلکہ ایک ’سادھو‘ کے طور پر دیکھا‘ جو دو چادروں پر مبنی انتہائی سادہ زعفرانی رنگ کا لباس پہنے ہوا تھا اُور اُس کے ہاتھ میں کشکول تھا۔ ایک زمانہ تھا جب اُس کے بال گھنگھریالے ہوا کرتے تھے لیکن اُس نے اپنا سر منڈوا رکھا تھا۔
گوتم بدھ نے دنیا کو درس دیا کہ زندگی سادگی لیکن سچائی کے ساتھ بسر کرنی چاہئے۔ اُن کی ریاضت اُور اپنی ذات کے مطالعے سے لے کر کائنات پر غوروفکر کرنے کا مقصد صرف اُور صرف یہ تھا کہ وہ ’انسان دکھی کیوں ہوتا ہے؟‘ آخر لوگ ایک دوسرے سے جھگڑا کیوں کرتے ہیں؟ اور کس طرح انسان اپنے اندر پائی جانے والی اُس نفرت کو شکست دے سکتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی ذات اُور دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بنا ہوا ہے۔ پیغام یہ دیا کہ ”اگر ہر انسان اپنے قول و فعل میں دوسروں کو تکلیف دینا ترک کر دے تو دنیا امن کا گہوارہ بنائی جا سکتی ہے۔“ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر‘ ایک شہزادے نے روشن خیالی حاصل کی اور زندگی کے حقائق ان پر واضح ہوئے تو سدھارتھ کے تذکرے کو ’گوتم بدھ‘ کے نام سے تاریخ نے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا۔ تاریخی اعتبار سے اُن کا جنم دن قمری کیلنڈر کے آخری مہینے کے آٹھواں دن ہوا لیکن جاپان میں شمسی کیلنڈر اپنایا گیا اُور قمری دن کو اب شمسی دن کے طور پر ہر سال رواں ماہ (دسمبر) میں ’بودھی ڈے‘ کے عنوان سے منایا جاتا ہے تاکہ گوتم بدھ کے نروان (روشن خیالی) کے حصول کی یاد میں منایا جا سکے۔ اِس خاص دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں بدھ مت کے پجاری (بھکشو) مندروں کو رنگوں اور موم بتیوں سے سجاتے ہوئے مہاتما بدھ کی تعلیمات پر عمل کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتے تھے۔
پاکستان آج جس خطے میں ہے اِس کی تاریخ ’بدھ مت‘ سے خاص نسبت رکھتی ہے۔ اشوک اعظم کے دور حکومت میں یہی علاقہ ”گندھارا“ کہلاتا تھا جو بعد میں ایک طویل عرصے تک بدھ مت کا گڑھ بنا رہا اور موجودہ پاکستان کا قدیم شہر ٹیکسلا گندھارا کے مرکز کے طور پر دنیا بھر میں مشہور ہو۔ ٹیکسلا کی سماجی و مذہبی اہمیت کی وجہ سے دنیا بھر سے علم کے متلاشی اُور مذہب کے پیروکار بالخصوص راہب یہاں آنے لگے اور مردان میں واقع تخت باہی کے تعلیمی مراکز میں ہمسایہ ممالک کے طلبہ نے داخلہ لیا جن کی یادگاریں (آثار) محفوظ ہیں اُور آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اُس دور میں عظیم فلسفی کوٹلیہ چانکیہ نے قدیم تکششیلا یونیورسٹی میں بھی حکمت کی تعلیم دی‘ جہاں انہوں نے ارتھ شاستر اور چانکیہ نیتی نامی مشہور کتابیں لکھیں‘ یہ کتابیں آج بھی نصاب میں پڑھائی جاتی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ دارالحکومت اسلام آباد کا علاقہ بھی قدیم زمانے میں ”گندھارا“ ہی کا حصہ تھا لہٰذا ہر بدھ مت کے پیروکار کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار پاکستان کی زیارت کے لئے ضرور آئے اور گندھارا کے آثار قدیمہ کے مقامات کے ساتھ پاکستان کے مختلف عجائب گھروں میں محفوظ مقدس نوادرات کو ضرور دیکھے۔ اِس بات کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی تنظیمیں ’بدھ سٹ سرکٹ‘ کے نام پر بین الاقوامی مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہیں‘ جس میں گندھارا سیاحت سے متعلق ٹاسک فورس کی چیئرپرسن کی حیثیت سے راقم الحروف ایک بار پھر یہ تجویز پیش کر رہا ہوں کہ پاکستان کے خطے میں بودھ اکثریتی ممالک کے ساتھ ”گندھارا کوریڈور“ قائم کیا جائے جس میں نیپال‘ چین‘ تھائی لینڈ‘ جاپان‘ سری لنکا‘ ویت نام‘ کمبوڈیا‘ بھوٹان‘ انڈونیشیا‘ میانمار (برما)‘ ملائیشیا‘ سنگاپور اور منگولیا شامل ہیں۔ ایسے ممالک سفارتی محاذ پر پاکستان کے قریب سمجھے جاتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر ممالک کے شہریوں کو آمد پر ویزا کی سہولت حاصل ہے۔ مجوزہ گندھارا کوریڈور کے تحت اگر حکومت پاکستان دارالحکومت اسلام آباد کو مذکورہ ممالک کے دارالحکومتوں سے ملا کر خصوصی پروازوں کا سلسلہ شروع کرے تو یہ اقدام سیاحتی ترقی میں ”گیم چینجر“ ثابت ہو سکتا ہے جس سے پاکستان کو سیاحت سے ہونے والی آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ ہوگا جبکہ بدھ مت کی دنیا سے جوڑنے کی وجہ سے پاکستان کا عالمی سطح پر مثبت تشخص بھی اُجاگر ہوگا۔ سیاحتی ترقی کے اِس اقدام سے قریب دو ارب ڈالر سالانہ آمدنی متوقع ہے اُور یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ پاکستان کو دنیا کے کسی بھی مالیاتی ادارے سے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ اِس کے زرمبادلہ کے ذخائر ہمیشہ ڈالروں سے بھریں رہیں گے۔ اگر بین الاقوامی بودھی آبادی کا صرف ایک فیصد بھی پہلے سال میں دس روزہ زیارت کے لئے پاکستان کا دورہ کرے تو اس چھ ارب ڈالر تک آمدنی ہو سکتی ہے اُور سفارتی محاذ پر بھی کامیابیاں حاصل ہوں گی۔ (مضمون نگار سابق رکن قومی اسمبلی اُور پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر رمیشن وانکوانی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)