امریکا نے ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انسانی بنیادوں پر غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرارداد ویٹو کردی۔ عرب امارات کی جانب سے فوری جنگ بندی کی قرارداد پر 15میں سے 13ارکان نے حمایت میں ووٹ دیا جبکہ برطانیہ غیر حاضر رہا، فرانس اور جاپان جنگ بندی کے مطالبے کی حمایت کرنے والوں میں شامل تھے۔ اقوام متحدہ میں نائب امریکی سفیر رابرٹ وڈ کا کہنا تھا کہ قرارداد کا مسودہ غیر متوازن ہونے کے علاوہ حقیقت سے ہم آہنگ نہیں ہے، ہم اس قرارداد کی حمایت نہیں کر سکتے جو غیر پائیدار جنگ بندی کا مطالبہ کرتی ہے اس سے صرف ایک نئی جنگ کا بیج بویا جا سکتا ہے‘ قرارداد کو بہتر بنانے کے لیے اس میں حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کی مذمت کو شامل کیا جائے جس میں 1200 اسرائیلی ہلاک اور 240 سے زائد یرغمالی بنالیے گئے تھے۔
آج امت مسلمہ صرف خرافات ہی میں نہیں مسلم ممالک کے ایجنٹ حکمرانوں کے درمیان کہیں گم کردہ راہ ہے۔ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ غزہ کے مسلمانوں پر مظالم کو روکنے کے لیے وہ امریکا اور اس عالمی برادری سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں جو مشرق وسطیٰ میں یہودی وجود کی سلامتی کے لیے 75برس سے ہراول دستے کا کردار ادا کررہی ہے۔ یہودی وجود غزہ میں مسلمانوں کے قتل عام سے اپنے اس امیج کی بحالی چاہتا ہے جس نے اس کے ناقابل تسخیر ہونے کے مفروضے کو پرزہ پرزہ کرکے رکھ دیا ہے۔ حماس کے مٹھی بھر مجاہدین جو یہودی وجود کے ساتھ لڑرہے ہیں، اسرائیل کی افواج کے مقابل ان کی تعداد اور وسائل کا کوئی تقابل نہیں لیکن خوفناک اور لا محدود فوجی قوت کا حامل اسرائیل دو مہینے سے زائد گزرجانے کے باوجود غزہ جیسے محدود جنگی میدان میں انہیں شکست نہیں دے سکا۔ اسرائیل اور مغربی ممالک غزہ سے مسلمانوں کا مکمل صفایا اور انہیں مستقل نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ تنہا اسرائیل کا نہیں اسرائیل اور مغربی ممالک کا مشترکہ ہدف ہے۔ اس معاملے میں اقوام متحدہ محض چٹکیاں بجانے اور بجوانے تک محدود ہے۔ اس معاملے میں امریکا، یورپی ممالک اور اقوام متحدہ کے درمیان اختلاف محض طریق کار کا ہے، قتل عام اور تباہی کے پیمانے کا ہے۔
موجودہ قومی ریاستیں برطانیہ، فرانس اور امریکا جیسے مغربی ممالک کی ترتیب دی ہوئی ہیں جن کی جڑیں ویسٹ فیلیا میں ہیں۔ یورپ میں احیائے ثانیہ کے مختلف مراحل میں بادشاہ اور پوپ کے درمیان اقتدار کے حصول کی جنگ اور کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان تیس سالہ طویل جنگ، ایک معاہدہ امن پر ختم ہوئی تھی۔ اس معاہدہ امن کو پیس آف ویسٹ فیلیا 1648 کہتے ہیں۔ جس کے بعد چھوٹی چھوٹی جدید ریاستوں کا تصور قائم ہوا، یورپ میں جمہوریت کو پنپنے کا موقعہ ملا، مذہب اور سیاست الگ الگ ہو گئے اور عیسائیت کا اثر رسوخ اقتدار کے ایوانوں سے ختم ہوگیا۔ اس جدید رسیاستی نظام کی زد میں مسلم ممالک بھی آئے جنہیں 56چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ساتھ ہی اسرائیل کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ اس تقسیم سے امت مسلمہ کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی اور مسلمانوں کی فوجی طاقت جہاد کے ذریعے امت مسلمہ کی حفاظت کے بجائے چھوٹے چھوٹے ممالک کی سرحدوں کی حفاظت تک محدود ہوگئی۔
اس محدود وطنیت کی فکر کا نتیجہ ہے کہ پچھلے دنوں مصر کے صدر جنرل سیسی نے کہا تھا ’’مصر کی فوج مصر کی حفاظت کے لیے ہے‘‘ دو دسمبر کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا تھا کہ (پاکستان کی) مسلح افواج کی توجہ مادر وطن کی سرحدوں کے دفاع پر مرکوز ہے‘‘۔ پاکستان یقینا ایک مسلم سرزمین ہے جس کی حفاظت ایک شرعی فریضہ ہے لیکن وطنیت کے غیراسلامی تصور کے تحت خود کو صرف پاکستان کی سرزمین کی حفاظت تک محدود کردینا ایک غیر شرعی عمل ہے۔ اگر آج خانہ کعبہ اور مسجد نبوی پر حملہ کردیا جائے تو کیا افواج پا کستان کو یہ کہہ کر متحرک کرنے سے روک دیا جائے گا کہ ان کا فرض صرف پاکستان کی سرحدوں کی حفاطت ہے۔ جب کہ ہمارے لیے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی حفاظت پاکستان کی سرحدوں سے زیادہ مقدم ہے۔ آج امت مسلمہ نے وطنیت کے مغربی تصور کو مسترد کردیا ہے اور ہر اسلامی ملک میں ایک ہی مطالبہ ہے کہ اہل فلسطین کی حفاظت اور یہودی وجود کے مقابلے کے لیے مسلم افواج کو متحرک کیا جائے۔