سیاسی مبالغے اُور مغالطے

مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے سیاسی منظر نامے پر تین شخصیات کا غلبہ تھا،شیخ مجیب الرحمان ،ذوالفقار علی بھٹواور جنرل آغا محمد یحیٰ خان۔ شیخ مجیب اور بھٹو دونوں میں یہ قدر مشترک تھی کہ بہت اعلیٰ پائے کے خطیب اورعوام کے نبض شناس تھے۔ دونوں کی شعلہ بیانی کا یہ عالم تھا کہ مجمع پر سحر طاری ہوجاتا۔مگرہر دو شخصیات میں مقررانہ صلاحیت کے سوا کوئی مشابہت و مماثلت نہ تھی۔ شیخ مجیب کی تمام تر صلاحیتیں فن تقریر تک محدود تھیں مگر بھٹو ہمہ گیروہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ مشرقی پاکستان بحران کے ایک اہم کردار میجر جنرل(ر)رائو فرمان علی جو سقوط ڈھاکہ کے عینی شاہد ہیں، انہوں نے بعد ازاں ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ ’’شیخ مجیب کو ’ہینڈل‘ کیا جا سکتا تھا۔ وہ ایک بہت اچھا مقرر تھا جس کو انگریزی میں ’’Demagogue‘‘ کہتے ہیں۔ ایسا شخص جس میں عقل کی کمی ہو لیکن تقریر بہت اعلیٰ کرتا ہو۔عوام کو اِدھر سے اُدھر لے جائے۔ بہت ہی اعلیٰ تقریر کرتا تھا لیکن وہ اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کا مالک نہیں تھا۔‘‘شیخ مجیب جنہیں ’’ڈیماگاگ‘‘قرار دیا جاتا ہے، ان کی تقریروں نے بنگالیوں میں نئی روح پھونک دی۔ان کے ایک جملے نے ایسا بیانیہ متشکل کیا جس کا ریاست کے پاس کوئی توڑ نہیں تھا اور وہ جملہ تھا ’مجھے اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے‘۔ محولابالادانشور جنہوں نے تاریخی حقائق کو مسخ کرکے موجودہ صورتحال کو مشرقی پاکستان میں درپیش حالات سے تشبیہ دینے کی کوشش کی،وہ دراصل سابق وزیراعظم عمران خان کے حلیفِ سخن ساز ہیں۔ جناب عمران خان کے سحر میں مبتلا دانشورانِ عصر جن کا رزق ان کی مقبولیت سے وابستہ ہے،وہ کبھی بھٹو سے ان کا موازنہ کرتے ہیں تو کبھی انہیں قائداعظم سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان کی پیروی کرنے والے دانشور نہ صرف ماضی کی قد آور شخصیات میں ان کی مشابہت کی سچی جھوٹی روایات ڈھونڈتے ہیں بلکہ حالات و واقعات کے تانے بانے ماضی سے جوڑنے کیلئے دروغ گوئی سے بھی گریز نہیں کرتے۔

یوں تو عمران خان اس قدر منفرد و ممتازشخصیت کے حامل ہیں کہ ان کا ماضی کے کسی بھی سیاستدان سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔کبھی یوں لگتا ہے کہ وہ جنسی بے اعتدالیوں کے باعث اس وقت کے فوجی حکمران ’’آغا مدہوش‘‘کا پرتو ہیں۔گاہے محسوس ہوتا ہے وہ بھٹو کا بھیس بدل کر قائد عوام بننے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔لیکن اگر اس دور کے رہنمائوں سے تقابل کرنا ہو تو میری دانست میں انہیں موجودہ دور کا شیخ مجیب کہنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ وہ ’’ڈیماگاگ‘‘ کی تعریف پر پورا اُترتے ہیں۔عمران خان ایسے شعلہ بیاں مقرر ہیں کہ چاہیں تو پانی میں آگ لگادیں، چینی کہاوت ہے کہ آگ کو کاغذ سے نہیں ڈھانپا جا سکتا مگر وہ زور خطابت کی بنیاد پر یہ کارنامہ بھی سرانجام دے سکتے ہیں۔ شیخ مجیب کی طرح بیانیہ بنانے اور اپنے مقلدین میں اسے حرفِ آخر کے طور پر پیش کرنے میں عمران خان کا کوئی ثانی نہیں۔جس طرح شیخ مجیب کے بیانئے کا ریاست کے پاس کوئی توڑ نہیں تھا اسی طرح عمران خان بھی اپنے پیروکاروں کو اس نہج پر لے آئے ہیں جہاں عقل و خرداور دلیل و منطق کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔ان کے چاہنے والوں کا ذہنی معیار اور طرزعمل دیکھ کر خیال آتا ہے کہ محض قائد ہی ’’ڈیماگاگ‘‘نہیں ہوتے،تحریر وتقریر کے فن میں طاق ان کے مقلدین اور جذباتی پیروکار بھی ’’ڈیماگاگ‘‘ہوسکتے ہیں۔

حاصل کلام یہ ہے کہ جناب عمران خان متذکرہ بالا تینوں شخصیات کے انداز و اطوار کسی حد تک مستعار لیے ہوئے ہیں مگر ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی ہوبہو میل نہیں کھاتے مثال کے طور پرذوالفقار علی بھٹو کی طرح وہ جان دینے کو تیار ہوں تو بھی یہ توقع رکھنا عبث ہوگا کہ ان کی سیاست ہمیشہ زندہ رہے گی۔کیونکہ تحریک انصاف کے ہاں نظریاتی کارکنوں کی وہ کھیپ دکھائی نہیں دیتی جو ذوالفقار علی بھٹو پیپلز پارٹی میں چھوڑ کر گئے۔ہاں البتہ جب تک وہ زندہ ہیں ،ان کی سیاست اور مقبولیت یکسر ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔جناب عمران خان کا موازنہ اور تقابل شیخ مجیب الرحمان سے کیا جاسکتا ہے مگر اب نہ وہ حالات ہیں اور نہ ہی عمران خان کی مقبولیت میں وہ شدت کہ ان کے اشارہ و ابرو پر ملک بند ہوجائے یا پھرتمام تر مزاحمت اور رکاوٹوں کے باوجود ان کی جماعت اس طرح جھاڑو پھیر دے جس طرح عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں کامیابی حاصل کی تھی۔اس حوالے سے عمران خان کئی طرح کے مبالغوں اور مغالطوں کا شکار ہیں۔