بھارتی عدالت عظمیٰ کا مقبوضہ کشمیر سے متعلق فیصلہ کشمیریوں کے ساتھ ظلم ہے۔ اس بات کا پہلے دن سے امکان تھا کہ ہماری ’’اخلاقی حمایت‘‘ بھارت کو کشمیر میں مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں اس کی مدد کرے گی اور ایسا ہی ہوا ہے۔ مودی حکومت نے 2014ء سے اس مسئلے کو بھارت کے حق میں موڑ دیا۔ پہلے مرحلے میں کشمیر اور پاکستان کی سرحدوں پر خاردار باڑ لگا کر پاکستانی اور کشمیروں کے درمیان تعلقات کے راستے کی شہ رگ کاٹ کر رکھ دی اور بھارت نے کشمیر کو غزہ بنا دیا۔ اس دوران پاکستان نے یہ کر کہہ کر کہ پاکستان کشمیری مجاہدین کی کوئی مدد نہیں کر رہا ہے خاموش رہا ہے۔ اس تمام کارروائی سے کشمیر کی آزادی کو ایسی کاری ضرب لگی کہ آج کشمیر کے تمام قانونی راستوں کو تالالگا دیا گیا ہے۔
بھارتی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بارے میں بھارت کے انگریزی روزنامہ ہندو کے مطابق اس متفقہ فیصلے میں دنیا کو یہ بتا دیا گیا ہے کہ آرٹیکل 370 جنگی ماحول میں ایک عارضی انتظام تھا اور اس کی نوعیت بھی عبوری تھی۔ اس اخبار کے مطابق اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس سے ریاست کے بھارت میں انضمام کے بعد جموں کشمیر کی اندرونی خود مختاری ختم ہو گئی ہے۔ حسب ِ روایت پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری رہنما اور تنظیمیں اس فیصلے پر سخت رد عمل ظاہر کر رہے ہیں۔ نئی دہلی میں بھارتی عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ میں شامل ایک جج ایس کے کول نے سفارش کی ہے کہ جموں کشمیر میں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی طرف سے 1980ء کی دہائی سے لے کر اب تک جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں، ان کی تفتیش ایک کمیشن کے ذریعے کرائی جائے۔ تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارتی عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے بعد بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ہندو دہشت گردی اور عسکریت پسندی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستانی اور بھارتی مسلمانوں کی رائے یہی ہے کہ اس مسئلے کا حل وہی ہے جس کا عملی مظاہر حماس 7اکتوبر سے غزہ میں کر رہی ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری تنظیموں نے بھارتی عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس فیصلے کے بعد ممکنہ طور پر وہاں عسکریت پسندی دوبارہ سر اُٹھا سکتی ہے۔ کچھ کشمیری رہنماؤں نے بھارتی عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کو بھارتی آئین اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بھی قرار دیا ہے جبکہ کچھ کے خیال میں یہ فیصلہ نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ تضاد سے بھرا ہوا بھی ہے۔ لیکن بین الاقوامی قوانین کے مالک ممالک جو کچھ کر سکتے ہیں وہ اسر ائیل کی حمایت کر کے کر رہیں۔
وفاقی وزیر مشال ملک، یونائیٹڈ کشمیر نیشنل پیپلز پارٹی کے چیئرمین شوکت علی کشمیری کا کہنا ہے کہ کشمیریوں نے ماضی میں عسکریت پسندی کے بھیانک نتائج دیکھے ہیں، اس لیے وہ اس طرف نہیں جائیں گے۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے پورے کشمیر میں شدید اشتعال ہے۔ مشعال ملک کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے بھی خلاف ہے، جو جموں کشمیر کے منقسم خطے کو ایک متنازع علاقہ قرار دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھارتی آئین کے شق نمبر 51 اور 53 کی بھی خلاف ورزی ہے، جس کے حوالے سے ہم مزید قانونی پیچیدگیوں کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ فیصلہ صدارتی حکم نامہ 1954ء کی بھی خلاف ورزی ہے‘‘۔
انسانی حقوق کی متعدد بھارتی اور بین الاقوامی تنظیموں نے کشمیری رہنما افضل گرو کے خلاف عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ کشمیریوں کے حوالے سے بھارتی عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ہمیشہ سے متعصبانہ رہا ہے، ’’عدالت عظمیٰ نے مقبول بٹ اور افضل گرو کے لیے کوئی منصفانہ فیصلے نہیں دیے تھے‘‘ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عدالتی فیصلہ مایوس کن رہا ہے، ’’بابری مسجد کے حوالے سے بھی ایسا ہی فیصلہ سنایا گیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے سارے ادارے ہندتوا کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں‘‘۔ سردار عتیق احمد خان کے مطابق اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت آر ایس ایس اور بجرنگ دل کی زد میں ہے‘‘۔
مقبوضہ جموں کشمیر میں ہونے والے انتخابات پر کئی بھارتی اور غیر سرکاری تنظیمیں آواز اُٹھاتی رہی ہیں۔ اب تک بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں، ان میں عوام نے بہت کم شرکت کی ہے اور ٹرن آوٹ ہمیشہ ہی کم رہا ہے۔ اگر اگلے برس کے انتخابات میں یہ ٹرن آوٹ زیادہ دکھاتے ہیں، تو ایسا ممکنہ طور پر ان 40 لاکھ سے زیادہ غیر کشمیری باشندوں کے ووٹوں کی وجہ سے ہو گا، جن کو کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے لیے وہاں بسایا گیا ہے‘‘۔