سانحہ مشرقی پاکستان

سولہ دسمبر 1971 کو صبح 10 بجے جنرل نیازی نے جنرل اروڑا کے سامنے رینک اتارے، ریوالور ہولسٹر سے نکال کر سامنے دھری میز پر رکھا، ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کیے، اور اپنے آپ کو ایک جنگی قیدی کے طور پر انڈین فوج کے حوالے کردیا۔ 14 اگست 1947 کو بننے والا پاکستان دولخت ہوگیا۔ عوامی لیگ اور مکتی باہنی بنگلا دیش کے اقتدار کی مالک بن گئیں۔

جنرل یحییٰ خان نے جنگلوں دریاؤں صحراؤں میں لڑنے کا اعلان کیا لیکن چند گھنٹوں میں ہی مغربی محاذ پر بھی جنگ بندی ہوگئی۔ 20 دسمبر 1971 سے پہلے لیفٹیننٹ جنرل گل حسن نے جنرل یحییٰ کو معزول کرکے ذوالفقار علی بھٹو کو جو اقوام متحدہ کے اجلاس میں جنگ بندی کی آخری کوشش ناکام ہونے اور سقوط ڈھاکہ کے بعد بے یقینی کا شکار تھے، واپسی کا اشارہ دیا اور رات کے اندھیرے میں بھٹو نے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھال کر فوری طور پر جنرل آغا محمد یحییٰ خان، جنرل عبدالحمید خان اور لیفٹیننٹ جنرل ایم ایم پیرزادہ کو برطرف کرکے قوم کا غم و غصّہ دور کرنے کی کوشش کی۔ 26 دسمبر 1971 کو بھٹو نے جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا جسے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کی ذلّت کے اسباب سے پردہ اٹھانا تھا۔

سانحہ مشرقی پاکستان کے تین فریق تھے، فوجی مقتدرہ (جرنیل)، شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو۔

بھٹو صاحب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے جنہیں جنرل گل حسن کی زیر کمانڈ فوجی مقتدرہ اقتدار میں لائی تھی، تیسرا فریق شیخ مجیب الرحمن مارچ 1971 سے پاکستان میں زیر حراست تھا جسے بغاوت کے جرم میں سزائے موت سنائی جاچکی تھی۔ بنگلا دیش کے قیام کے 3 ہفتے بعد بین الاقوامی دباؤ کے باعث بھٹو صاحب نے شیخ مجیب کو 8 جنوری 1972 کو کلین چٹ دے کر لندن روانہ کردیا تھا۔ چنانچہ حمود الرحمن کمیشن کی زد پر فوج کی ایسٹرن کمانڈ تھی جو بنگلا دیش میں مکتی باہنی اور انڈیا کی مشترکہ حراست میں تھی۔ حیرت انگیز طور پر ایسٹرن کمانڈ کی دستیابی کا انتظار کیے بغیر کمیشن کی ابتدائی رپورٹ 1972 میں اور حتمی رپورٹ 1974 میں پیش کی گئی جسے انتہائی خفیہ قرار دے کر سر بہ مہر کردیا گیا۔ مدتوں بعد اس رپورٹ کے بعض حصّے انڈین اخبارات میں اشاعت پذیر ہوئے، تب تک بھٹو صاحب تختہ دار تک پہنچائے جا چکے تھے۔ گمان ہے کہ اس رپورٹ کی اشاعت سے فوج کو دباؤ میں لانا مقصود تھا۔ اس رپورٹ میں جنرل یحییٰ خان، جنرل عبدالحمید خان اور لیفٹیننٹ جنرل ایم ایم پیرزادہ اور لیفٹیننٹ جنرل گل حسن کے کھلی عدالت میں ٹرائل کی سفارش کی گئی تھی جو کبھی نہ ہوسکا۔ اوّل الذکر تین افراد تو 20 دسمبر 1971 کو ہی برطرف کیے جاچکے تھے جبکہ لیفٹیننٹ جنرل گل حسن جنہیں افواج پاکستان کا واحد تھری اسٹار جنرل ہونے کا منفی اعزاز حاصل تھا مارچ 1972 میں اپنے عہدے سے سبکدوش کیے گئے۔ ان کے ساتھ فضائیہ کے سربراہ ائر مارشل رحیم خان اور نیوی کے سربراہ ایڈمرل مظفر حسین بھی باعزت ریٹائر کیے گئے۔ حمود الرحمن کمیشن کی سفارش کے مطابق جنرل گل حسن پر مقدمہ چلانے کے بجائے اسے آسٹریا میں سفیر مقرر کردیا۔ اب بھٹو صاحب ایسے احسان ناشناس بھی نہیں تھے کہ اپنے محسن گل حسن کو کسی خجالت سے دوچار ہونے دیتے۔

ویسے حمودالرحمن کمیشن رپورٹ میں جنرل امیر عبداللہ نیازی کی کردار کشی، غلط منصوبہ بندی اور جنرل یحییٰ خان کی عیاشیوں کے تذکرے کے سوا تھا ہی کیا جسے خفیہ دستاویز قرار دے کر قوم کو جھانسا دیا گیا جیسے کہ قومی مجرم پکڑئے گئے ہوں اور قوم آئندہ کے لیے ایسے سانحوں سے محفوظ ہوگئی ہو۔

لیکن حقیقتاً اس کمیشن کے ذریعے سے ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کے سیاسی عزائم کا سبب بننے والے جرائم سے توجہ ہٹاکر سارا ملبہ ایسٹرن کمانڈر اے اے کے نیازی پر ڈال دیا گیا حالانکہ نیازی کو تو 4 اپریل 1971 کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آتش فشاں بنائے گئے مشرقی پاکستان بھیجا گیا تھا۔ نیازی سے پہلے جنرل ٹکا خان ایسٹرن کمانڈر تھے جنہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے التوا کے بعد عوامی لیگ کے خلاف بدترین آپریشن کے دوران مبینہ طور پر یہ کہا تھا کہ مجھے بنگالی نہیں، بنگال چاہیے… جسے بنگالی ہی نہیں اس کے ساتھی پاکستانی بھی بنگال کا قصائی کہتے تھے۔ جب بھٹو نے ڈھاکہ سے واپسی پر کراچی ائرپورٹ پر یہ کہا تھا کہ شکر ہے پاکستان بچ گیا تب ایسٹرن کمانڈر یہی جنرل ٹکا خان تھے، جو مارچ 1972 میں جنرل گل حسن کے بعد پاکستانی فوج کے سربراہ بنائے گئے۔ 1976 میں فوج میں اپنے منصب جلیلہ سے فراغت کے بعد بھٹو صاحب نے مشرقی پاکستان میں پیپلز پارٹی کے لیے ان کی انمول خدمات کے صلے میں انہیں پارٹی کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ یہ کون جانتا تھا کہ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بغیر وہ کبھی وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے اور ٹکا خان نے مشرقی پاکستان میں علٰیحدگی کی چنگاری کو شعلہ بنا کر ان کا کام آسان کرکے ان پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔