عالمی میڈیا کے ذریعے اور اسلامی ملکوں کے حکمرانوں کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل دو ریاستوں کا قیام ہے۔ حالاں کہ ۸۰ برس کے دوران یہ بار بار ثابت ہوچکا ہے کہ اسرائیل صرف اسرائیل پر مشتمل ایک ریاستی حل چاہتا ہے اور فلسطین سمیت کئی عرب ممالک پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ جبکہ حماس اور ایک ایک فلسطینی اس بات پر یکسو ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔ حماس کی مضبوطی کی وجہ سے اسرائیل کی بوکھلاہٹ میں اضافہ ہورہا ہے، اس نے چند روز قبل اپنے ہی تین فوجیوں کو حماس کی قید سے رہائی پر فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔ وہ ہاتھ میں امن کا جھنڈا تھامے آگے بڑھ رہے تھے۔ اس واقعے کے بعد سے اسرائیل کے حامی یورپی ممالک بھی جنگ بندی پر زور دینے لگے ہیں۔ حماس کی جانب سے سخت مؤقف محض ایک ریاست کے خلاف نہیں ہے اس وقت غزہ کی صورتِ حال افغانستان کی اس صورت حال سے بھی زیادہ مماثل ہے جس میں ساری دنیا طالبان کے خلاف تھی اور طالبان اپنی شرائط پر امریکا سے مذاکرات کررہے تھے۔ طالبان کے ملک میں تو صرف چند ہزار غیر ملکی تھے جو حکومت کررہے تھے اور ان کی فوج تھی لیکن اسرائیل تو فلسطینیوں کی زمین پر قائم شدہ ریاست ہے جس کی پشت پر امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس سمیت پورا یورپ اور ۵۷ مسلمان ملکوں کے حکمران ہیں۔ گویا عالمی بدمعاشوں کا صرف ایک مزاحمتی تحریک سے مقابلہ ہے۔ حماس کے بارے میں اسرائیل، امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور اسلامی ملکوں کے ماہرین کے تمام اندازے ناکام ہوچکے ہیں اور حماس کی مزاحمت روز بروز مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ موت سے ڈرنے والے صہیونیوں، دنیا دار مسلم حکمرانوں اور مغرب کے نزدیک کمزور کو دبا کر دنیا پر غلبہ حاصل کرنا ہی حکمت عملی ہے۔ حالاں کہ ان تمام سپر پاورز کو اسی دنیا میں کئی کئی بار یہ سبق مل چکا ہے کہ ظاہری طاقت اور اسلحہ و فوجی عددی برتری کی اللہ سے ڈرنے والوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں۔ روس اور امریکا افغانستان میں یہ مزا چکھ چکے ہیں اور اب اسرائیل کی باری ہے۔ میڈیا وار کے حملے کے طور پر فلسطینیوں پر اسرائیلی بمباری اور شہادتوں کے تو تمام اعداد و شمار بار بار بتائے جارہے ہیں لیکن اسرائیلیوں کے نقصان کو اس طرح توڑ توڑ کر روک روک کر بیان کیا جارہا ہے جس طرح عراق میں زمینی جنگ شروع ہونے کے بعد امریکی اپنا نقصان بیان کرتے تھے۔ حالاں کہ ان کے لوگ اوّل روز ہی سے مرنا شروع ہوگئے تھے۔ اب اسرائیلی اپنے نقصان کا اعتراف کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ خود ایک اسرائیلی کمانڈر نے اعتراف کیا ہے کہ ہر ۵ منٹ میں ایک اسرائیلی فوجی نشانہ بن رہا ہے۔ غزہ میں جو فوجی داخل ہوئے ہیں ان پر راکٹ، مارٹر گولوں اور اسنائپر رائفلوں سے حملے ہورہے ہیں۔ ۵ روز کے دوران ۱۰۰ جنگی گاڑیاں تباہ ہوچکی ہیں۔ حماس کی گوریلا تکنیک نے غزہ کی گلیاں اسرائیلی فوج کے لیے موت کی گلیوں میں تبدیل کردی ہیں۔ اس گھبراہٹ کے نتیجے میں اسرائیلی کمانڈر نے تمام طلبہ سے اپیل کی ہے کہ وہ فوج میں شامل ہوجائیں۔ حالانکہ اسرائیل کے ہر شہری کے لیے لازمی فوجی تربیت کا قانون سختی سے لاگو ہے۔ لیکن فوج میں شمولیت کو ہر کوئی تیار نہیں۔ اس قسم کی اپیلیں تو شکست کھانے والی فوجیں کرتی ہیں۔ فاتحین تو اپنی شرائط پیش کرتے ہیں اور حماس نے فاتحانہ انداز ہی اختیار کیا ہوا ہے۔ اسلامی ممالک کے حکمراں امریکی غلامی سے نکل کر حقائق کی بنیاد پر مسئلے کا حل تلاش کریں۔ مغرب اور امریکا کی دی ہوئی دو ریاستی حل کی قوالی بند کریں۔ عملاً تو وہاں دو ریاستیں قائم ہی ہیں۔ ایک فلسطینی اتھارٹی ہے جس کے پاس کوئی اتھارٹی نہیں اور دوسری اسرائیل کی قابض ریاست ہے۔ یہ دو ریاستی حل غزہ اور اریحا کی آبادیوں پر مشتمل علاقوں میں فلسطینی ریاست کے قیام کے ساتھ ۱۹۹۵ میں روبہ عمل میں آچکا تھا لیکن اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ اسرائیل اور صہیونیت کو پھیلانے اور دنیا پر شیطانی نظام قائم کرنے کے عزائم کی روشنی میں تو اسرائیل دراصل ایک بڑی ریاست کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔